319

صبغتہ اللہ۔

رنگوں میں اک ایسا رنگ ہوتا ہے جو سب سے منفرد ہوتا ہے ایک ایسا رنگ جو اس رنگ میں رنگ جائے اسے کسی اور رنگ کی طلب ہی نہیں رہتی اور وہ رنگ ہے صبغتہ اللہ یعنی" اللہ کا رنگ"

یہ ایک ایسا رنگ ہے جو آہستہ آہستہ چڑھتا ہے اور چڑھنے والے کو اس قدر مسرور کردیتا ہے کہ وہ اس رنگ میں نکھرتا چلا جاتا ہے اور باقی رنگوں سے کنارہ کشی کردیتا ہے اور جب انسان صبغتہ اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے تو یہی رنگ اس کی پہچان بن جاتا ہے۔

صبغتہ اللہ کے رنگ میں دنیا کے رنگ مانند پڑجاتے ہیں جب انسان صبغتہ اللہ سے لبریز ہو پھر انسان اپنی "میں" کو بھول جاتا ہے اور وہی کرنے کو دل کرتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔اور اللہ کی رضا بتانے کے لئے قرآن پاک ہے ہمارے پاس۔اور جب ہم قرآن مجید کی آیت کو سمجھ کر پڑھتے ہیں تو دل گواہی دیتا ہے کہ یہ سچی آیتیں ہیں اسی پر عمل کرکے انسان فلاح پاتا ہے۔

اللہ والے کو خود کو ثابت نہیں کرنا پڑتا کہ میں اللہ والا ہوں یانہیں۔

صبغتہ اللہ کے رنگ میں ڈھلنے والے کا انوکھا ہی اک رنگ ہوتا ہے روشن چمکدار کے دور سے ہی دیکھ کر آنکھوں کو روشنی سے منور کردے اور پتہ لگ جائے کے اتنا مسرور کردینے والا رنگ تو صبغتہ اللہ کاہی ہوسکتا ہے۔

ایک وقت ایسا آتا ہے کہ صبغتہ اللہ کے رنگ میں ڈھل کر تنہائی سے ہمیں ڈر نہیں لگتا اندھیرے سے خوف محسوس نہیں ہوتا ہروقت کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں رہتی اور کسی کے بغیر تنہائی محسوس نہیں ہوتی۔کیونکہ ہمیں صبغتہ اللہ کا ساتھ مل جاتا ہے آپ کا باطن صاف ہوجاتا ہے آپ کا زکیہ نفس صحیح سمت میں چل پڑتا ہے۔

اللہ کی محبت میں جو تڑپ کا مزہ ہے اس کا تو کوئی نعم البدل ہوہی نہیں سکتا ہے اسی محبت اور اسی تڑپ میں تو انسان صبغتہ اللہ کے رنگ میں ڈھلتا چلا جاتاہے اور دنیاوی خوف اور بےچینیاں کہیں دور چلی جاتی ہیں انسان کے اندر باہر اک انوکھی سی راحت بسیرا کرلیتی ہے جو اس کے نفس کو تسکین دے کر اسے پرسکون بنادیتی ہے۔

صبغتہ اللہ کی روشنی میں اللہ کے سب معجزوں اور نظاروں کو دیکھتے اور سوچتے ہوئے ایک الگ ہی دنیا بس جاتی ہے ایسی دنیا جو سکون اور راحت دیتی ہے۔

اور اس دنیا کا سکون گواہ ہوتا ہے کہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور رہی ہے

ہم لوگوں سے دوستوں سے دلی محبت کرلیتے ہیں ان پر سب کچھ لٹادینے کو تیار ہوجاتے ہیں اور وہی لوگ جلد یا بدیر ہم سے خفا ہوجاتے ہیں اور اکثر جدا ہوجاتے ہیں۔پھر ہمیں اس دکھ اور تکلیف میں احساس ہوتا ہے اللہ کی محبت کا 

اور تب ہم اس خلا کو اللہ کے پاس جاکر ہی پورا کرتے ہیں اللہ سے مانگ کر گڑگڑا کر اپنا رونا روتے ہیں معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔

اور جب اس مقام پر اللہ کی محبت مل جاتی ہے نہ تو انسان صبغتہ اللہ کے رنگ کو اپناکر دنیاوی دھوکہ دہی کو بھول جاتا ہے ایک اپنائیت اللہ کی اسکے سب دکھوں کا مداوا بن جاتی ہے اور وہ پرسکون ہوتا چلا جاتا ہے اسکے دل سے سے دکھوں کا بوجھ اترتا چلا جاتا ہے جب اسے اللہ کی محبت مل جاتی ہے تو اس کے یہ دنیا اور لوگوں سے جڑے غم کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔

انسان سکون میں اس لئے آجاتا ہے کہ اسے دلی محبت اس زات سے ہوئی ہے جو واقعی محبت کا حق دار ہے جس سے محبت میں بے سکونی نہیں ہے تکلیف اور دکھ درد نہیں ہے کوئی بے چینی نہیں ملتی۔کیونکہ اللہ تو اپنے بندوں سے کبھی جدا نہیں ہوتا ۔

اور جب انسان صبغتہ اللہ میں اس مقام پر آجاتا ہے تو اسے غم اور فکر اس بات کی ہوتی ہے کہ کہیں وہ اپنے اللہ کو ناراض نہ کردے اور اگر نادانی میں ناراض کربھی دے انسان اپنے اللہ کو تو اسے اس بات کا سکون ہوتا ہے کہ اس کا اللہ تو اسے اس کے چند آنسوؤں  کے بدلے معاف کردے گا۔اور اس مقام پرہی بندے کو ڈر لگتا ہے اپنے اعمال سے کسی کا دل دکھا دینے سے کہ کہیں ایسا کرکے وہ اپنے اللہ کو کھو نہ دے۔ 

اور ایسے میں سب غم مانند پڑجاتے ہیں کیونکہ انسان تو صبغتہ اللہ کے رنگ میں ڈھل کر پرسکون اور فلاح کے راستے کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ 

اور بیشک دلوں کا سکون اللہ کے زکر میں ہے۔

انسان صرف کہہ دینے سے صبغتہ اللہ کے رنگ میں نہیں ڈھل جاتا اسے خود کو ثابت کرنا پڑتا ہے 

اللہ پاک انسان کی محبت کو جانچتا ہے کہ وہ کس مقام پرہے اسے واقعی اللہ سے محبت ہے وہ صبغتہ اللہ کے رنگ میں ڈھلنا چاہتا ہے یاصرف دنیاوی دکھاوے کے لئے خود کو اللہ والا ثابت کرکے لوگوں کی نظر میں اچھا بننے کا جھوٹا ڈھونک رچاء رہا ہے۔

اور جو ایسا جھوٹا ناٹک کرتے ہے اپنے ظاہر اور باطن کو چھپاتے ہیں تو وہ نادان بہت جلد اللہ کی پکڑ میں آکر دنیا اور آخرت میں اپنے لئے رسوائی سمیٹتے ہیں۔

خود اپنا تجزیہ کریں۔اور دیکھیں کیا آپ صبغتہ اللہ کے رنگ میں ڈھل رہیں ہیں آپکا رنگ اتنا کچا تونہیں کہ زرا سی آزمائش کے پانی سے یہ رنگ بہہ تونہ جائے گا کیونکہ صبغتہ اللہ کا رنگ تو اتنا گہرا ہے کے انسان پرکتنی بھی مصیبتیں آزمائشیں آجائیں وہ اپنے اللہ پر یقین کرکے صبرکرتا ہے۔

اور بیشک اللہ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

بشکریہ اردو کالمز