508

سکڑتے معاشرے

دنیا کا ایک ہی چکر ہے ، یہاں کچھ رکا ہوا نہیں ہے ۔ ہر چیز  ارتقاء  کے عمل سے گزرتی ہے ۔ جو رک جاتی ہے وہ بے سود ہوجاتی ہے ۔ چلے بغیر اور چال بدلے بغیر کوئی زیادہ چل نہیں سکتا ۔ یہی دنیا کی خوبصورتی ہے ۔اور جو چیز ٹھہر جاتی ہے وہ ضائع ہو جاتی ہے  ، زندگی کی رمک سے عاری ، تعفن پھیلاتی ہے ۔معاشروں   کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ یہ ارتقاء کے عمل کا شکار ہوتے ہیں اور اس عمل پہ عمل پیرا رہتے ہیں ۔ جو معاشرے کسی ایک جگہ رک  ،  ٹھہر جاتے ہیں  وہ اپنی خوشبو کھو دیتے ہیں۔  تعفن پھیلاتے ہیں۔ ایسے معاشرے پیپ زدہ معاشرے کہلاتے ہیں ۔

یہ صورتحال مزید بھیانک ہوجاتی ہے جب  کسی معاشرے  کی راہ  میں روکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔ جس معاشرے میں تعلیم کے نام پر  ایک تماشا لگا ہو  اور  انصاف اپنی بولیاں لگوا رہا ہو  وہاں  کی ذہنیت  اپاہچ پن کا شکار ہوتی ہے ۔ ایسے معاشرے  خود  کو کائنات کے ارتقائی عمل سے لاتعلق کرچکے ہوتے ہیں اور  دنیا کو   سوائے  تعفن  کے  کچھ نہیں دیتے ۔ ان معاشروں میں ایسے بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی وفاقی وزیر  ٹیلی وژن پہ آکر  فوجی بوٹ  اپنے  سینے  کے برابر  رکھ کر اور پھر بار بار  ہاتھ سے اٹھا کر اپنے منہ کے برابر لاکر دوسروں پہ اسکو چاٹنے کا الزام لگائے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوتی ۔ایسے معاشروں میں   پرائی محفلوں میں وفاقی وزیروں کا   صحافیوں سے گتھم گتھا ہونے میں کوئی اچنبھا نہیں ہوتا ۔ان معاشروں میں  اگر  دو ہزار  سے زیادہ سرکاری ملازم  سرکار کے فنڈ سے بیویوں کے نام پر  امداد لینے لگ جائے تو پھر بھی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ انھیں بھی بچوں کے پیٹ پالنے ہوتے ہیں۔ ان معاشروں میں اگر  سرعام  دو چھوٹے بچوں کے سامنے انکے ماں ، باپ اور بہن کو سرکار قتل کردے تو بھی بے حسی جواز ڈھونڈ لیتی ہے ۔ 

ان معاشروں میں اگر معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کے واقعات ہوں تو معمول سمجھ کر ٹھکرانا مشکل نہیں ہوتا ۔ ان معاشروں میں " انصاف " کی "ویڈیوز " سامنے آنا کوئی قبیح فعل نہیں ہوتا ۔ ایسے معاشروں میں  ایک عرصہ قوم کو " ووٹ کو عزت دو "  کی لال بتی دکھا کر چلتے بننا  کو شطرنج کی چال سمجھانا اور بتانا   آسان ہوتا ہے۔ ان  معاشروں میں      بے حسی کے رقص کا نظارہ  سب سے خوبصورت منظر ہوتا ہے ۔ ان معاشروں  میں  سچ کا مقفل ہونا  لازمی ہوتا ہے ۔ ان  معاشروں میں  بے شمار چودھریوں کا چوپٹ راج چلتا ہے ۔ 

یہ معاشرے علم  ، تفکر  اور  دوراندیشانہ نگاہ کے قحط کا شکار ہوتے ہیں۔ایسے ہی ایک معاشرے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ وہاں ایک بزرگ رہتے تھے۔ بزرگ بڑے نیک ، پارسا اور پانچ وقت کے نمازی شخص تھے ۔ سب انکی عزت کرتے تھے ۔ سب بڑے جب کوئی بڑا مسئلہ آن پڑا ہوتا تو ان بزرگ کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ۔ ایک عرصے تک تو سب ایسے ہی چل رہا تھا ۔ مگر پھر کچھ تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں ، لوگوں نے دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی شروع کردی ۔ اپنی رائے کو زبردستی منوانا شروع کردیا ۔ ہر گھر میں ایک سے زیادہ چودھری پیدا ہوگئے۔ وہ بزرگ ان ساری تبدیلیوں سے بڑے پریشان تھے۔ انھوں نے کئی بار لوگوں کی توجہ ان تبدیلیوں کی طرف مبذول کروانا چاہی مگر ہر بار لوگوں نے کوئی نا کوئی جواز بتا کر انکی بات سننے سے انکار کردیا ۔ جب صورتحال اس قدر بگڑنے لگی کہ  وہاں کے چند بڑوں  نے  بھی ہر عمل کی مصلحتیں بیان کرنا شروع کردیں تو وہ بزرگ یہ کہہ کر وہ جگہ چھوڑ کر چلے گئے کہ " میں اب ایسی جگہ مزید نہیں رک سکتا جہاں تعفن کو خوشبو ، بہانہ کو دلیل اور جھوٹ کو مصلحت مانا جانے لگے "۔

یہ معاشرے  مصلحت ، تعفن اور بہانہ کے حصار  میں پروان چڑھتے ہیں۔ ان معاشروں میں علم اپنی وقعت کھودیتا ہے ۔ ان معاشروں میں اگر  ڈاکٹر قصاب کا لقب  پائے تو  حیرانگی نہیں ہونی چاہیے کہ ان معاشروں میں تعفن خوشبو کہلاتی ہے ۔ ان معاشروں میں اگر   دو  گز زمین کے تنازعے پہ خاندانی دشمنیاں پرورش پانا شروع کردیں  تو  دکھ کی بات نہیں۔ ان  معاشروں میں   گدھے  کا گوشت بیچنا کوئی مشکل کام نہیں۔ ایسے معاشروں میں کیمیکلز والا دودھ بیچنا "سرکاروں " کی سرپرستی رکھتا ہے

قارئین!  ایسے معاشرے آہستہ آہستہ سکڑنا شروع کر دیتے ہیں۔  اپنے وجود کے خاتمے کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں۔  ایسے معاشرے دوسروں کے قدموں کی دھول بن کہ رہ جاتے ہیں۔ ان معاشروں میں جس حکمران کا کشکول جتنا بھرا ہوتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ٹہھرتا ہے۔ اور یہی صورتحال ہمارے معاشرے کی ہے ۔ دلیل اپنی وقعت کھو چکی ہے اور انصاف اپنی    لاج گروی رکھ چکا ۔ تعلیمی اداروں  نے دھوکا دہی اپنا لی ہے ۔ 

 

قارئین! عموماً غلط  کام کی کوئی وجہ نہیں ہوتی صرف بہانہ ہوتا ہے ۔ مگر ہمارے ہاں غلط کام کی وجہ بھی ہوتی ہے اور  بھاری بھرکم دلیل بھی میسر ہوتی ہے ۔  حقیقت یہ ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس نے سکڑنا شروع کر رکھا ہے ۔ اگر ہم نے ہماری آنے والی نسل کو پلنے پھولنے کے لیے ایک آزاد اور ایسا ماحول فراہم کرنے کا فیصلہ کرنا ہے جہاں سانس لینا آسان ہو تو ہمیں خود کو ان الجھنوں سے آزاد کروانا ہوگا ۔ 

ان قبیح حالات سے نکل کر درست سمت گامزن کرنے والی ایک ہی شاہراہ ہے اور وہ شاہراہ تعلیم و تربیت ہے ۔ اگر کوئی  اپنی نسلوں کو  بے خوف دیکھنا چاہتا ہے  تو اسے خوف کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔ علمی مباحث کی راہ ہموار کرنا ہوگی ورنہ یہ معاشرہ ایس طرح پیچکتا رہے گا اور سانس لینا محال ہوتا رہے گا ۔ 

 

بشکریہ اردو کالمز