318

داعش افغانستان کے لئے نیا خطرہ؟


کابل ائیرپورٹ پر دھماکوں میں ڈیڑھ سو افغان و غیر ملکی شہریوں کی ہلاکت کے بعد داعش کا ذمہ داری قبول کرنا، اس حملے کے بعد امریکا کا داعش سے انتقام لینے کا بیان اور پھر امریکا کا افغانستان میں ڈرون حملہ اور کابل دھماکے کے منصوبہ ساز کی ہلاکت کا دعویٰ مستقبل کا منظرنامہ واضح کررہا ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ کابل ائیرپورٹ واقعے سے مستقبل کا کیا تعلق ہے؟ تو ذرا صبر کرلیجئے۔ افغان طالبان کے پاس اس وقت افغانستان کا کنٹرول ہے مگر عملاً دیکھا جائے تو ایسا کلی طور پر نہیں ہے۔ طالبان اس وقت جس مرحلے سے گزر رہے ہیں اس میں یہ بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے کہ وہ جس طریقے سے بندوق کے زور پر کابل تک پہنچے ہیں اسی بندوق کے زور سے وہ اپنے مخالف گروپوں کے خلاف بھی لڑیں۔ سو طالبان کے پاس فی الوقت ایک ہی کارگر ہتھیار مفاہمت کا باقی بچتا ہے۔ کابل دھماکوں کے بعد یہ سوال یقینی طور پر طالبان اور افغان عوام کے لئے پریشانی کا باعث ہے کہ کیا اب داعش کے حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟ افغانستان میں داعش کی موجودگی صرف طالبان ہی کے لئے نہیں پڑوسی ممالک خصوصاً روس، چین، وسط ایشیائی ریاستوں اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے لئے بھی باعث تشویش ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داعش خراسان کے پاس اس قدر ہتھیار یا جنگجو موجود ہیں کہ وہ طالبان یا پڑوسی ممالک کے لئے خطرہ ثابت ہوں؟ طالبان نے شہروں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد جیلوں کے دروازے کھولے تو ہر قسم کے قیدیوں کو رہائی مل گئی، کچھ اطلاعات ایسی بھی ہیں کہ رہا ہونے والوں میں داعش کے کچھ لوگ بھی شامل تھے جن کو گھات لگا کر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل بھی طالبان اور داعش جنگجووں کی لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ طالبان کے لئے اس وقت امن کے قیام کی راہ میں سب سے بڑا چینلج داعش سے درپیش ہے۔ طالبان کو پہلے کلی طور پر پشتون جنگجو گروہ کہا جاتا تھا لیکن اب وقت کافی بدل چکا ہے اب طالبان کی صفوں میں فارسی اور دری بولنے والوں کی بڑی تعداد بھی نظر آتی ہے۔ شمال کی جانب سے طالبان کی فتوحات کے آغاز سے ہی دنیا سمجھ گئی تھی کہ اب طالبان بیک وقت بندوق اور بات چیت کا ہتھیار اٹھائے لانگ ٹرم کے عزائم لیکر آگے بڑھ رہے ہیں۔ پھر کابل تک آنے کے بعد سے لیکر اب تک کی طالبان کی قیادت کی سرگرمیاں بھی بتارہی ہیں کہ وہ مفاہمت کے ذریعے ایک قومی حکومت کی تشکیل کے لئے سنجیدہ ہیں۔ ماضی میں اقتدار کی ہوس نے لاکھوں افغانوں کا خون ناحق بہایا ہے، اس مرتبہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جو دھڑے طالبان کے ساتھ راضی بہ مذاکرات ہیں، وہ اقتدار سے زیادہ افغان عوام کا بہتر مستقبل چاہتے ہیں۔ یہ وہی دھڑے ہیں جن کی وجہ سے افغان عوام نے خانہ جنگی کی تباہ کاریاں بھی دیکھیں اور سازشوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکت خیزیوں کا بھی سامنا کیا۔ اب اگر سابقہ شمالی اتحاد کے رہنماء بھی اس امر پر متفق ہیں کہ طالبان کے ساتھ شریک اقتدار ہوا جائے تو امید ظاہر کی جاسکتی ہے کہ اب شاید کوئی قابل قبول اور پائیدار حکومتی سیٹ اپ وجود میں آئے لیکن سب سے بڑا سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ملک کی سکیورٹی کیسے یقینی بنائی جائے؟ اب کی بار شاید نظر آنے والی کوئی بیرونی فوج افغانستان پر حملہ آور نہ ہو لیکن داخلی صورتحال افغانستان کی اس قدر حوصلہ افزا بھی نہیں جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ طالبان کو داخلی محاذوں پر سکون میسر نہیں آئے گا۔ سب سے بڑا چیلنج داعش خراسان کی شکل میں اپنی موجودگی بتا اور دکھا چکا ہے۔ حکومت سازی کے لئے ہونے والی بات چیت میں یقیناً آئندہ عبوری یا مستقل سیٹ اپ یا نظام مملکت کے خدوخال طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت میں شمولیت کے لئے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کا مشکل مرحلہ یقیناً مزید کچھ دن لے گا لیکن جب یہ سارے مراحل طے پائیں گے تو اس کے بعد ملک کو چلانے کے لئے اداروں کی تشکیل نو بھی توجہ مانگے گی۔ نظام انصاف نئے سرے سے تشکیل پائے گا اور دستوری تبدیلیوں کے بھی قوی امکانات ہیں۔ ظاہر ہے امن کے قیام اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے صرف ایک اے کے 47 بندوق کافی ہوگی نا ہی طالبان کی پوری فورس اس قدر بڑی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا سکتی ہے۔ داعش کا مقابلہ داخلی محاذوں پر کرنے کے لئے جس قومی وحدت کی ضرورت پڑے گی اس کا مستقبل ایک قابل قبول حکومت سازی کے مرحلے سے جڑا ہوا ہے۔ تمام دھڑے طالبان کے شانہ بشانہ شریک اقتدار ہوں گے تو ظاہر ہے ان دھڑوں سے وابستہ لوگ بھی کام پر واپس آئیں گے، دفاتر پھر سے فعال ہونا شروع ہوں گے اور نظام مملکت چلتا ہوا محسوس ہوگا۔ پھر یقیناً "لاپتہ" ہونے والی افغان نیشنل آرمی اور افغان پولیس کے اہلکاروں کی "بازیابی" کا عمل بھی شروع ہوگا۔ جو جدید اور بھاری اسلحہ امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج چھوڑ کر گئی ہیں، اس کا استعمال بھی افغان فوج اور پولیس کو سکھایا گیا تھا۔ طالبان اور گمشدہ افغان فورسز پر مشتمل ایک فورس نئے سرے سے تشکیل دی جاسکتی ہے جس کا مطمع نظر صرف ملک کی سکیورٹی ہو۔ بھارتی تربیت یافتہ افغان فورسز کے دل و دماغ میں یقیناً زہر بھرا گیا ہوگا لیکن اگر افغان دھڑوں کے قائدین چاہیں تو شرارت کی صورت میں یہ ہندوستانی سرمایہ کاری ضرور متاثر ہوسکتی ہے۔ کالم کے شروع میں مستقبل کے منظر نامے کا جو ذکر کیا گیا ہے، اب اس طرف آتے ہیں۔ کابل ائیرپورٹ پر خودکش دھماکے کے بعد امریکا نے ایک بار پھر افغانستان پر فضائی حملہ کرکے ائیرپورٹ حملے کے منصوبہ ساز کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان کا کہنا ہے فورسز نے افغان صوبے ننگرہار میں داعش جنگجووں کے ٹھکانے پر ڈرون حملہ کیا، حملے میں داعش خراسان سے تعلق رکھنے والا کابل ائیرپورٹ حملے کا منصوبہ ساز مارا گیا، حملے میں کسی عام شہری کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ کابل ائیرپورٹ پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملہ آور امریکی فورسز کا سکیورٹی حصار توڑتے ہوئے 50 میٹر اندر  گیا اور خود کو بارودی مواد کی مدد سے اڑا دیا۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن نے کابل ائیر پورٹ پر خودکش حملے کا ذمہ دار داعش خراسان کو قرار دیتے ہوئے اس کی قیادت پر حملوں کے احکامات دئیے تھے۔ اس خبر کا آپ نے کیا تاثر لیا ہے؟ وہی ناں جو میں نے لیا ہے؟ یعنی امریکا انخلا کے باوجود یہاں ڈرون حملوں کی شکل میں اپنے اہداف حاصل کرتا رہے گا۔ یہ بھی کہ داعش امریکا کا بھی "دشمن" ہے، یہ بھی کہ امریکا داعش سے انتقام لینے کے لئے اس کا پیچھا کرسکتا ہے، یہ بھی کہ امریکا کے پاس داعش کی صورت میں افغانستان واپسی کا "جواز" موجود رہے گا۔ تو بتائیے ذرا کچھ سمجھ میں آیا؟

بشکریہ اردو کالمز