614

طالبان کو طالبان سے ہی مسلہ؟

اگر کسی کا یہ خیال ہے افغان طالبان کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مطمئن اور پرسکون ہیں تو یہ خیال درست نہیں ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ طالبان کو کابل پر پورا کنٹرول حاصل ہے تو یہ خیال بھی غلط ہے۔ ملاعبدالغنی برادر کی یہ بات بالکل درست ہے کہ طالبان کا امتحان اب شروع ہوا ہے لیکن یہ امتحان صرف طالبان کا نہیں ہے، افغان حکومت کے خدوخال کیا ہوں گے؟ دستور کیا ہوگا؟ دستور کی ترامیم کیا ہوں گی؟ یہ اکیلے طالبان کا ہی دردسر نہیں۔ شراکت اقتدار کی خواہش رکھنے والے دھڑے اور شخصیات بھی امتحان میں مبتلا ہیں۔ امتحان سے اب افغانستان کے پڑوسی ممالک بھی دوچار ہیں۔ امریکا دوہرے امتحان سے دوچار ہے، 31 اگست تک افغانستان سے مکمل انخلا کی ڈیڈ لائن اور پھر امریکا کے دوست ممالک کی جانب سے افغانستان میں قیام کی مدت میں توسیع کا مشورہ الگ تذبذب ہے۔ خود امریکا بھی سوچ رہا ہے کہ کس شکل میں افغانستان میں اپنی موجودگی یقینی بنائے۔ طالبان مخالف دھڑے الگ سے امتحان کا شکار ہیں، بذریعہ ہتھیار طالبان کا مقابلہ کریں یا مذاکرات کرکے آئندہ کے افغان سیٹ اپ میں حصہ بقدر جثہ حاصل کرکے آرام سے بیٹھ جائیں؟ سب سے بڑے امتحان سے طالبان دوچار ہیں جن کو باہر سے اس قدر دباو کا سامنا نہیں ہے جس قدر فشار خود طالبان کی صفوں میں محسوس کیا جارہا ہے۔ طالبان کی قیادت نے پہلے اگر بیرون ملک کا سفر کیا تھا تو زیادہ سے زیادہ انہوں نے پاکستان دیکھا تھا، یہاں کے قبائلی علاقے دیکھے تھے یا پھر جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک دیکھا تھا۔ اب طالبان کی اعلی سطح کی قیادت ایران، روس، ترکی اور متحدہ عرب امارات بھی دیکھ چکے ہیں اور دوحہ میں براہ راست معاملے کے اصل فریق امریکا کے ساتھ "برابری" کی سطح پر مذاکرات بھی کرچکے ہیں۔ لیکن طالبان کی نچلی سطح پر ان صفوں پر نظر ڈالی جائے جو دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک بندوق اٹھائے افغانستان کے صحراوں اور پہاڑوں کی خاک چھان رہے ہیں تو اس امتحان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے جس سے طالبان کی قیادت دوچار ہے۔ ملا عبدالغنی برادر طویل عرصہ بعد افغانستان واپس آئے ہیں، ان کی طرح طالبان کے پہلے اور دوسرے درجے کے زیادہ تر قائدین بھی افغانستان سے پچھلی دو دہائیوں میں دور رہے ہیں۔ طالبان کے مذہبی شعبے سے وابستہ قائدین مذہبی معاملات میں جبکہ جہادی یا عسکری شعبے کے رہنما محاذ جنگ کی حکمت عملی میں مصروف رہے ہیں۔ اب طالبان کا جو شعبہ زیادہ امتحان سے دوچار ہے وہ سیاسی شعبہ ہے۔ مذہبی شعبے نے طالبان کو جو روحانی آکسیجن فراہم کی اس بنیاد پر طالبان کا عسکری شعبہ آگے بڑھتا چلا گیا اور باقی دو شعبوں کو بھی دنیا بھر کی طرح حیرت کے سمندر میں غرقاب کرکے کابل تک پہنچ گیا۔ طالبان کا بندوق بردار شعبہ کابل پہلے پہنچا ہے جبکہ عالی دماغ سیاسی شعبہ اس کے بعد کابل میں داخل ہوا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ کلی طور پر کریڈٹ طالبان کے تینوں میں سے ایک شعبے کو دیا جائے، عسکری شعبہ اور اس سے وابستہ ہزاروں جنگجو اگر پیش قدمی اور قبضہ کرنے کے قابل ہوئے ہیں تو ان کی اس کامیابی کے پیچھے وہ نفسیاتی برتری بھی تھی جو سیاسی شعبے نے ان کو دلائی۔ جب دوحہ معاہدے کے نتیجے میں امریکا نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا تو دنیا بھر میں اس کو امریکا کی شکست اور طالبان کی فتح سے تعبیر کیا گیا۔ طالبان کی اس کامیابی سے اگر ایک جانب افغان حکومت اور طالبان مخالف دھڑوں کے حوصلے پست ہوگئے، وہیں دوسری جانب طالبان پہلے سے زیادہ جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے اور آج کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ طالبان کے سیاسی شعبے کا یہی اصل امتحان ہے کہ اس کو اپنے مذہبی اور عسکری شعبے کی امیدوں پر پورا اترنا ہے۔ اگر طالبان کا سیاسی شعبہ کافی حد تک تبدیل ہوگیا ہے تو مذہبی اور عسکری شعبہ اپنی پرانی سوچ پر کھڑا ہے۔ طالبان کا روشن خیال چہرہ دیکھنے کی خواہش رکھنے والے بھی طالبان کے مذہبی اور عسکری شعبے کی بنیاد پرستی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ سادہ الفاظ میں مزید واضح کئے دیتا ہوں کہ اگر افغانستان کا نیا دستور بنتا ہے یا پہلے سے موجود دستور میں کوئی تبدیلی آتی ہے اور یہ تبدیلی اسلام سے مطابقت نہیں رکھتی یا کلی اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ بنتی نظر نہیں آتی تو یقینا طالبان کا مذہبی شعبہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ ہماری تحریک کا مقصد کیا تھا؟ عسکری شعبہ پوچھ سکتا ہے کہ ہم نے اور ہمارے بچوں نے بندوق کس مقصد کے لئے اٹھائی تھی؟ اس وقت طالبان کا جو چہرہ دنیا کو نظر آرہا ہے وہ ان کا سیاسی چہرہ ہے، اسی شعبے نے اپنی صفوں کی اس حد تک تو برین واشنگ کی ہے کہ دنیا کو آج طالبان بدلے بدلے نظر آتے ہیں، جب خواتین کو کام کی اجازت دی گئی، عام معافی کا اعلان کیا گیا اور میڈیا کی خواتین رپورٹرز اور اینکرز بھی اپنے کام میں مصروف نظر آئیں تو کچھ حلقوں کو امکان نظر آیا کہ افغانستان کے اگلے حکومتی سیٹ اپ یا ازسر دستور سازی میں وہ طالبان کی بنیاد پرست سوچ کو بریک لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہی بریک شاید کچھ طالبان لیڈرز کو بھی پسند ہو مگر امتحان نچلی صفوں کا درپیش ہے۔ یہ جو پندرہ اگست سے لیکر آج تک حکومت سازی میں تاخیر ہورہی ہے، اسی امتحان کا نتیجہ ہے۔ اور اس تاخیر میں شاید خیر کا بھی کوئی پہلو ہے اور وہ یہی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے اور ایک قابل قبول افغان حکومت کی تشکیل کو یقینی بنایا جائے۔ ایسی حکومت جو افغان عوام کو بھی قبول ہو، عالمی برادری کو بھی اور سب سے بڑھ کر افغان طالبان کی نچلی صفوں کو بھی۔ افغان طالبان کو ایک امتحان طالبان ہی کے نام سے اس تحریک سے بھی درپیش ہے جو پاکستان میں سرگرم رہا ہے۔ افغان طالبان نے ایک کمیشن بناکر پاکستانی طالبان کو احکامات جاری کئے ہیں کہ فوری طور پر ہتھیار ڈال کر پاکستان میں کارروائیاں بند کی جائیں۔ امتحان یہ ہے کہ پاکستانی طالبان نے ان احکامات پر کوئی جواب یا ردعمل نہیں دیا۔ اب پاکستانی طالبان کہیں کا رخ بھی کرسکتے ہیں، داعش جیسی تنظمیوں کے ساتھ بھی رجوع کرسکتے ہیں۔ نظریاتی قربت کی وجہ سے افغان طالبان کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ یوں اس حوالے سے بھی کہا جاسکتا ہے کہ طالبان کو طالبان سے ہی مسلہ درپیش ہے۔

بشکریہ اردو کالمز