پشاور کے گرد و نواح میں آج بھی افغان پناہ گزینوں کے متعدد کیمپ موجود ہیں۔ حیات آباد جیسے پوش علاقے سمیت پشاور اور خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں کیمپوں کے علاوہ رہائشی علاقوں میں بھی افغانوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ یہاں آباد افغانوں کی اکثریت پشتو بولتی ہے۔ فارسی اور دری بولنے والے افغان پڑوسی ملک کا وہ طبقہ ہے جس کو پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے۔ یہ ذرا ایلیٹ کلاس کا طبقہ ہے جس کا تعلیمی اداروں اور علاج گاہوں کا اپنا ایک نظام ہے۔ اس طبقے کے خاندانوں کے کچھ افراد جرمنی، اٹلی، آسٹریلیا، برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور دیگر یورپی ممالک میں رہائش رکھتے ہیں۔ اسی طرح پشتو بولنے والے افغانوں کی اکثریت کو دیکھا جائے تو ان کے بچے دینی مدارس میں زیر تعلیم رہتے ہیں، کیمپوں کے اندر امدادی سکولوں میں پڑھتے ہیں یا بالکل ہی نہیں پڑھتے۔ صاحب ثروت افغانوں کے بچے ان تعلیمی اداروں میں بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں جہاں جدید عصری تقاضوں کے مطابق پڑھایا جاتا ہے۔ فارسی بولنے والے افغانوں کی اکثریت اچھے کاروبار سے وابستہ ہے جبکہ پشتو بولنے والے زیادہ تر افغان دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد مجھے خیال آیا کہ ان افغانوں کو قریب سے دیکھا اور سنا جائے جو پاکستان میں رہائش رکھتے ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کے اپنے ملک کے حالات کے بارے میں خیالات جاننے کے لئے میں نے پشاور کے نواح میں چارسدہ روڈ پر واقع خزانہ اور خراسان مہاجر کیمپ کا دورہ کیا۔ خراسان کیمپ کا بازار کاروباری سرگرمیوں کے حوالے سے خاصا مصروف بازار ہے جبکہ خزانہ افغان مہاجر کیمپ کے اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہاں موجود نوجوان نسل اسی کیمپ کے اندر پیدا ہوئی ہے۔ جن بچوں نے بے سر و سامانی کی حالت میں اپنے والدین کے ہمراہ 42 سال قبل ہجرت کی تھی آج وہ بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ان میں کئی بوڑھوں نے واپس جاکر اپنا آبائی علاقہ دوبارہ نہیں دیکھا جبکہ نوجوانوں کو صرف اتنا پتہ تھا کہ وہ افغانستان کے فلاں صوبے کے فلاں ضلع یا فلاں گاوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ افغان نوجوان افغانستان کے سیاسی حالات اور افغانستان پر پچھلی چار دہائیوں میں گزرنے والے حالات اور افغانستان کی پرانی تاریخ سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ کچھ افغان نوجوانوں سے میری بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی کے "انجام" سے خوش نہیں تھے اور طالبان کی واپسی پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔ اسی طرح ایسے نوجوان اور بوڑھے بھی تھے جو طالبان یا جمہوریت دونوں سے لاتعلق رہ کر صرف اور صرف امن کے پیاسے تھے۔ ان مہاجر کیمپوں میں بجلی کا کوئی انتظام نہیں، پانی کے لئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سے دئیے گئے ہینڈ پمپوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت سولر پینلز لگاکر بجلی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ اکثر مکانات کچے ہیں جبکہ بعض پکی اینٹوں کے مکانات اس قدر خستہ حال ہیں کہ ان کو پکا کہنا بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ اکثر مکانات کے دروازوں کی جگہ بوسیدہ اور پیوند لگے پردے لٹکے نظر آئے۔ اسی طرح یہاں عالمی تبدیلیوں سے آگاہی یا خبروں کے حصول کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ اس کیمپ کے پناہ گزین بھی باقی کیمپوں کی طرح پولیس سے نالاں نظر ائے۔ ایک عرصے سے میں سوچتا رہا ہوں کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کے بیچ نفرت کا بیج بونے کے لئے وہ کونسی "خفیہ طاقت" ہے جو بڑی کامیابی سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ پاکستان کے یوم آزادی پر ملک بھر کی طرح بیرون ملک بھی ہمارا قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اور تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اسی طرح کے ملی جذبے سے سرشار افغان نوجوان جب اپنے ملک کے کسی قومی دن پر اپنا قومی جھنڈا لہرائیں تو ہم میں سے بعض لوگوں کو افغان نوجوانوں کا یہ عمل ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح مذہبی جماعتوں کے جلسوں میں امارات اسلامی افغانستان کا کلمہ طیبہ والا سفید جھنڈا لہراتا ہوا نظر آئے تو ہم اور ہمارا میڈیا سیخ پا ہوجاتا ہے۔ میں نے پشاور میں ہر سال افغانوں کے قومی دنوں کے موقع پر افغان نوجوانوں کا جوش و جذبہ دیکھا ہے۔ بالکل ہماری طرح کی ریلیاں، موٹر سائیکلوں پر افغان قومی جھنڈے لہرا کر سڑکوں پر مٹرگشت کرتے نوجوانوں کو دیکھا ہے۔ ہاں اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں مینار پاکستان جیسے واقعات ہوجاتے ہیں اسی طرح پاکستان مخالف نعرہ بازی کے افسوسناک واقعات بھی ہوتے رہے ہیں۔ آپ کسی ملک میں پناہ گزین ہوجائیں، ادھر ہی کمائیں اور کھائیں اور وہیں آپ میزبانوں کے خلاف نعرہ بازی کا مکروہ کام کریں تو کم از کم ایسے واقعات کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسا ظلم ہے جس کا بدلہ لینے کے لئے افغانستان میں یا پاکستان میں پاکستان کے خلاف نعرہ بازی کی جاتی ہے؟ پچھلے دنوں افغانستان کے یوم استقلال پر حیات آباد میں اسی طرح کا ناخوشگوار واقعہ سامنے آیا جب مبینہ طور پر کچھ افغان نوجوانوں کی پولیس کے ساتھ ان بن ہوگئی۔ وٹس ایپ گروپوں میں پیغامات چلاکر اس واقعے کو ایسا رنگ دینے کی کوشش کی گئی، خدانخواستہ جیسے پاکستان اور افغانستان کی جنگ چھڑ گئی ہو۔ پولیس نے پھرتی دکھائی اور وہاں موجود افغان نوجوانوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، مان لیا کہ ان نوجوانوں نے ہماری "قومی سلامتی پر وار" کیا تھا، ہسپتالوں سے آنے والے یا اس جگہ سے گزرنے والے افغان پناہ گزینوں کا کیا قصور تھا جن کو ٹیکسیوں سے محض اس جرم کی پاداش میں اتارا گیا کہ ان کے پاس "مہاجر کارڈ" تھے؟. ان میں حیات آباد کی قبرستان کا خادم شیر بھی شامل ہے۔ شیر کے والد بسم اللہ خان ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اور قبرستان کے خادم کے طور پر یہاں کام شروع کیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد اس کے بیٹے شیر نے قبرستان کے خادم کے طور اپنے والد کی ذمہ داریوں کو آگے بڑھایا۔ شیر پشاور میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا۔ اس کی بدقسمتی تھی کہ افسوسناک واقعے کے وقت جب پولیس پکڑ دھکڑ کررہی تھی تو اس کی جیب سے بھی "افغان مہاجر کارڈ" کی شکل میں بم برآمد ہوا تھا۔ اس کو گھر جاتے وقت ٹیکسی سے اتارا گیا اور پہلے تھانے پھر سیدھا جیل بھیجا گیا اور اب غالباً اس کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔ اس کے بیوی بچے رو رہے ہیں جبکہ حیات آباد کے لوگ بھی گواہ ہیں کہ شیر جیسا شخص کبھی بھی ایسی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بن سکتا کہ اس کو ملک دشمنوں کی طرح پکڑ کر ذلیل و رسواء کیا جائے اور ملک بدر کیا جائے۔ یقیناً اس واقعے میں "مجرم" بھی ہوں گے لیکن ماضی کی طرح اس واقعے میں بے گناہوں کو پکڑ کر کم از کم یہ بات ایک بار پھر واضح کردی گئی ہے کہ افغانوں کے دل میں ہم اپنا گھر کیوں نہ کرسکے؟ لاکھوں افغانوں کو ہم اپنا "سفیر" کیوں نہ بناسکے۔ آپ کو پتہ ہے جب طورخم بارڈر پر صرف ایک مریض بچے کو اس کے والدین کے ہمراہ پشاور کے ہسپتال میں علاج کے لئے آنے دیا جاتا ہے تو اس کا دل و دماغ پر کیا مثبت اثر پڑتا ہے؟ آج پاکستان اور افغانستان کے عوام کی دوریاں ختم کرنے کا وقت ہے۔ افغانستان کے حالیہ واقعات کا تقاضا ہے کہ پاک افغان عوام مل کر خطے میں پائیدار امن، باہمی ترقی و خوشحالی اور اپنے مشترکہ دشمنوں کے خلاف مل کر لڑنے کی کوئی منصوبہ بندی کریں ہم جذبات میں آکر یا کسی خفیہ ایجنڈا کے تحت دوریاں پیدا کرنے کی کسی مہم جوئی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ آپ کے دل میں اگر آج بھی افغانوں کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں تو ان کے کیمپوں میں جائیں، افغان پناہ گزینوں کے بازاروں میں جائیں، ان سے بات کریں، ناراضی کی اصل وجہ معلوم کریں اور یہ بھی سنیں کہ وہ پناہ دینے پر آپ کے شکر گزار کتنے ہیں؟ گنتی کے چند افسوسناک واقعات کی بنیاد پر تمام افغانوں کو "نمک حرام" کا لقب دینا کسی بھی طور دانشمندی نہیں۔ یہ بیچارے کئی بحرانوں سے گزر کر آئے ہیں اور آج بھی بحرانوں کا شکار ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ان افغانوں میں اپنے "سفیروں" کو ڈھونڈیں اور ان کو بروئے کار لائیں۔