حلالہ (پہلا حصہ)

امام مدینہ حضرت امام محمد مالک بن انس نے اسلام میں حلالے کے احکامات پراپنی مؤطا امام مالک میں حاشیے میں تفصیلی بحث کی ہے اور حلالے کے یک شب تصور کو حرام اور احکامات خاتم النبیین سے بغاوت قرار دیتے ہوئے ایسے اوباش عناصر کو سخت وعید سنائی ہے لیکن کیا کیجیے کہ ہمارے میڈیا پر بعض حادثاتی اینکر پرسن اور میزبان کہیں سے بہتے ہوئے ایسے آئے ہیں کہ کسی موضوع پرانھیں مہارت حاصل نہ ہو تو یہ اچنبھے کی بات ہوگی….متعہ، طلاق، نکاح مثیار، ہبہ اور لونڈی کے معاملات پر ایسی بے لاگ بحث فرماتے ہیں کہ ان کے شوز میں کھڑکیوں سے جھانکتے، ہانکتے اورہانپتے اسکالرز پہلے تو یہ ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں کہ فلاں حکم کا کوئی تصور اسلام میں موجود بھی ہے یا نہیں اور بالفرض اگر انھیں دل پر پتھر رکھ کر ماننا پڑے تو یہ دلائل کا ایسا شاہکار لاتے ہیں کہ مرد میں سے بھی میم نکالنا پڑتا ہے ….

اول تو یہ کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ  ’’اے عقبہ بن عامر کیا میں تمہیں کرائے کے سانڈوں کے بارے میں نہ بتاؤں‘‘؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ ضرور بتائیے!!! آپ نے ارشاد فرمایا ’’ وہ جو حلالہ کرتے ہیں اور حلالہ کرواتے ہیں‘‘ پھر ، سنن ابن ماجہ، سنندار قْطنی اور امام حاکم کی مستدرک میں بھی یہ حدیث ملتی ہے یعنی میرے آقا نے حلالے کے اسلامی احکامات کا احیا کرتے ہوئے ایک شب کے کرایے داروں پر اللہ کی لعنت فرمائی ہے۔

تاہم ستم ظریفی تو یہ ہے کہ حلالے کی مذمت کی آڑ میں بعض حجتی جنھیں قرآن کی ایک سورت بھی صحیح طرح یاد نہیں ہوگی وہ انگلی اٹھانے سے باز نہیں آتے اور حلالے کو کرائے کی ایسی شادی بنا کر پیش کرتے ہیں کہ میڈیا پر آنٹیاں اور مطلقہ خواتین میری طرح اف اف کریں کہ یہ تو ایک رات کی کہانی ہے…. دراصل قصور ان کا بھی نہیں ہے ان کی صحبتیں ان کے نظریات کی عکاس ہوتی ہیں،کسی کے ساتھ بیٹھ کر دلہن ایک رات کی دیکھ لی ہو گی اور اسی کو حلالہ سمجھ کر دس محرم کے دن موضوع ہی بدل ڈالا اور اکتفا صرف یہیں پر نہیں کیا بلکہ پاکستان میْں جگہ جگہ کھلے حلالہ سینٹرز کا ذکر فرما کر دنیا کودین کا مذاق اْڑانے کا بہترین موقع دیا حالانکہ بی بی سی کے اظہر احمد کے مطابق ْ بی بی سی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انٹرنیٹ پر متعدد ادارے مطلقہ مسلم خواتین سے حلالہ کے نام پر ہزاروں پاؤنڈ وصول کر رہے ہیں۔

یہ خواتین ایک اجنبی سے شادی کرنے اور جنسی تعلقات استوار کرنے کے بعد اسے طلاق دے کر واپس اپنے پہلے شوہر سے شادی کرنے کے لیے یہ رقم ادا کر رہی ہیں لیکن برطانیہ تو ان کا مدینہ ہے اس کا ذکر کرنا حرام اور وہاں کی ہر برائی حلال۔ میں کھل کر کہتا ہوں کہ حلالے کے معاملے پر دھرم ادھیکاریوں (یعنی دین کے ٹھیکے داروں) نے رہنمائی کرنے کے بجائے اسے فروغ دینے کے لیے ہر طرح کے نہ صرف جتن کیے بلکہ حلالے کے قرآنی اور سنت مطہرہ میں بیان کردہ طریقوں کو بتانے کے بجائے حیلے سے اس سنگین مسئلے کو بے ہنگم طریقے سے حل کیا…..

1۔حیلے سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، مولانا تقی عثمانی صاحب کا فتویٰ

مولانا تقی عثمانی صاحب حیلہ’تملیک زکا’ کے بارے میں فرماتے ہیں:(یاد رہے یہ حیلہ بھی ہمارے احناف ہی میں رائج ہے اورہمارے ہی علما کا تجویز کردہ ہے)

”اور یہ جو تملیک کا حیلہ عام طور پر کیا جاتا ہے کہ کسی غریب کو زکوۃ دے دی اور اس سے کہا کہ تم فلاں کام پر خرچ کردو، وہ غریب بھی جانتا ہے کہ یہ میرے ساتھ کھیل ہو رہا ہے اور حقیقت میںمجھے اس زکوۃ کی رقم میں سے ایک پیسے کا بھی اختیار نہیں ہے تو یہ محض ایک حیلہ ہے اور اس کی وجہ سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

اس واضح فتوی کے باوجود کسی حنفی کے اندر یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ مولانا موصوف سے یہ پوچھ سکے کہ جب مسئلہ زکوۃ میں حیلے سے حکم میں تبدیلی نہیں آتی تو نکاح جیسے مسئلے میں، جو اس سے کہیں زیادہ اہم ہے، حیلے سے نکاحِ حرام، نکاحِ حلال میں کس طرح تبدیل ہوجاتا ہے؟ اور زناکاری سے مطلقہ عورت زوج اوّل کے لیے کس طرح حلال ہوجاتی ہے؟

اور اب ملاحظہ فر مائیں’معارف’ میں شایع شدہ مضمون۔ اس کا عنوان بھی فاضل مقالہ نگار، ڈاکٹرحافظ محمد شکیل اوج صاحب شہید استاذ الفقہ والتفسیر، شعبہ علوم اسلامی، جامعہ کراچی، ہی کا تجویزکردہ ہے۔ (فاضل مقالہ نگار کو کراچی میں دہشت گردی کا شکار کردیا گیا، اناللّٰہ وانا الیہ راجعون)

2۔حلالہ مرو ّجہ اور قرآنی حلالہ کے درمیان فرق (از حافظ محمد شکیل اوج)

عارضی نکاح کو ‘حلالہ’ کہتے ہیں بشرطے کہ طلاق کو نکاح کی شرط نہ بنایا جائے، تاہم بہ وقت نکاح طلاق کا قصد وارادہ ہو تو کوئی حرج نہیں سمجھاجاتا، اس نکاح میں اوّل الذکر شکل کو ناجائز اور گناہ جب کہ مؤخر الذکر صورت کو جائز و روا قراردیا جاتا ہے۔ شرط وقصد کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے، مسئلہ زیر بحث یہ ہے کہ قرآن مجید نے سورۃالبقرۃ کی آیت 230(پھر اگر شوہر دو طلاقوں کے بعد تیسری طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے اس پہلے شوہر پر حلال نہ ہو گی) کے الفاظ میں جس نکاح کی بات کی ہے، وہ کون سا نکاح ہے مروّجہ حلالہ یا تحلیل شرعی؟

ہم سمجھتے ہیں کہ فقہی حلالہ قرآنی حلالہ سے بالکل الگ اور مختلف چیز ہے مگر افسوس کہ ہمارے غیرتحقیقی رویے اور قرآن سے ہمارے عدمِ تعلق اورعدمِ غوروفکر کے باعث قرآنی حلالہ، فقہی حلالہ میںگم ہوچکا ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسی متاعِ گم شدہ کی تلاش وجستجو ہمارا مقصد ہے، اس سلسلے میںہمیں چندباتوں پر غور کرنا ہوگا :

پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی رو سے نکاح کبھی عارضی نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ دائمی ہوتا ہے، اسی لیے تو ‘طلاق’ کا قانون بنایا گیا ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان کوئی ناقابل اصلاح نقص پیدا ہوگیا تواسے طلاق کے ذریعے ختم کیا جاسکے لیکن اگر شرطِ طلاق یا پھر قصدِ طلاق کے ساتھ نکاح منعقد ہو توبتایا جائے کہ اپنے انجام کے اعتبار سے دونوں میں کیا جوہری فرق رہ جاتا ہے؟ مگر حیرت ہے کہ ہمارے فقہا نے قصدِ طلاق کے ساتھ ایسے نکاح کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ اسے باعثِ اجروثواب بھی گرداناہے۔

-2لیکن ہمارے نزدیک کسی نکاح میں اگر ‘اِحصان’ کا معنی نہ پایا جائے تو اسے ازروئے قرآن نکاح کہنا محل نظر ہوگا، احصان’حصن’ سے بنا ہے اور حصن قلعہ کو کہتے ہیں، یعنی ایسی جگہ جو لوگوں کے لیے حفاظت کا کام انجام دے۔ شادی شدہ مرد کو محصن اور شادی عورت کو محصنہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ نکاح کے ذریعے وہ ایک دوسرے کو حفاظتِ نفس فراہم کرتے ہیں۔ گویا دونوں ایک قلعہ میں محفوظ ہوجاتے ہیں، مرد بہ ذریعہ نکاح عورت کو اپنے حصن (حفاظت وحمایت) میں لیتا ہے، اس طرح عورت کی عفت وعصمت محفوظ ہوجاتی ہے اور خود مرد کی بے قابو جنسی خواہش کو بھی لگام لگ جاتی ہے، یوں وہ خود بھی نکاح کے حصار میں محفوظ ہوجاتا ہے، قرآن نے مرد کو محصن اور عورت کومحصنہ کہہ کر دراصل اسی حقیقت کی تذکیر کی ہے۔

(جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ آج