افغانستان کی صورتحال کے اثرات پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا کی سیاست پر بھی کافی گہرے رہے ہیں۔ یہ پچھلی چند دہائیوں کا قصہ نہیں ہے بلکہ یہ داستان کافی پرانی ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحدی، لسانی اور مذہبی رشتے کی وجہ سے افغانستان کے عوام کی حالت زار پاکستان بالخصوص پاک افغان سرحدی علاقوں میں کافی محسوس کی جاتی رہی ہے۔ نیشنل ازم سے وابستہ یہاں کی قوم پرست جماعتوں کے افغانستان میں کافی گہرے روابط رہے ہیں اور اب بھی ہیں اسی طرح افغان جہاد کے زمانے میں افغانستان کی جہادی تنظیموں کے ساتھ ہمارے یہاں کی مذہبی جماعتوں کے روابط کافی مضبوط ہوئے۔ افغانستان کی حزب اسلامی اور پاکستان کی جماعت اسلامی کے رہنماوں کی ایک ساتھ جلسوں میں شرکت بھی کوئی پرانی بات نہیں۔ اسی طرح جمعیت علماء اسلام سمیع الحق گروپ کے بارے میں تو اب بھی برملا کہا جاتا ہے کہ اس کے اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے افغان طالبان کے ساتھ براہ راست روابط رہے ہیں۔ دارالعلوم حقانیہ کے بارے میں اب بھی کہا جاتا ہے کہ بیس سال قبل کی تحریک طالبان کے زیادہ تر رہنما یہاں سے فارغ التحصیل تھے۔ مولانا سمیع الحق شہید طالبان کو اپنے بچے قرار دیتے تھے۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان ان کے اور وہ طالبان کے کافی قریب رہے ہیں۔ پاکستان میں افغان طالبان کے وفود کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں بھی رہی ہیں۔ دیوبند حلقہ فکر کے مدارسِ کی اکثریت کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے ہے اور انہی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کو افغان طالبان سے فکری اور نظریاتی قربت حاصل ہے۔ حال ہی میں افغان طالبان کی بیس سال بعد دوبارہ اقتدار کی راہداریوں میں واپسی پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں میں جشن جبکہ پختون قوم پرست جماعتوں میں سوگ کا سماں ہے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے افغان طالبان کو ان کی "شاندار فتح" پر مبارکباد پیش کی ہے اسی طرح جے یو آئی س نے بھی طالبان کی فتوحات کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ برسر اقتدار تحریک انصاف کے کارکن طالبان کی فتح سے زیادہ پختون قوم پرست جماعتوں کی "سبکی" پر شاداں نظر آرہے ہیں۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے فرار پر تحریک انصاف کے کارکن ایسے خوش ہیں جیسے اے این پی سمیت دیگر قوم پرست جماعتوں کی سیاست ہی ختم ہوکر رہ گئی ہو۔ ایسا جشن تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے نہ ہوتا اگر اے این پی خیبرپختونخوا کے صدر ایمل ولی خان اشرف غنی کے ملک چھوڑنے سے قبل ان کے وکیل بن کر یہ نہ کہتے کہ "اشرف غنی ایسے پختون نہیں ہیں جو ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں گے". سیاست میں بعض اوقات منہ پر ہاتھ رکھ کر حالات کا جائزہ لینے کے لئے تحمل اور انتظار کی پالیسی اختیار کرنا پڑتی ہے لیکن اسفندیار ولی خان کے صاحبزادے کے بیانات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بیانات اے این پی کے کارکنوں کو دفاعی پوزیشن لینے کے قابل بھی نہیں چھوڑتے۔ تحریک انصاف کے سربراہ اور خیر سے ملک کے وزیراعظم عمران خان بھی اکثر اوقات اپنے ہی بیانات کی زد پر آجاتے ہیں۔ انڈین میڈیا نے وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان پر کافی تبصرے مارے ہیں جس میں وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑی ہیں۔ گویا عمران خان بھی افغان طالبان کی فتوحات پر مطمئن ہیں۔ اقتدار سے قبل عمران خان پشاور میں طالبان کو دفتر دینے کی پیشکش کرچکے ہیں جب یہاں پرویز خٹک کی سربراہی میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت تھی۔ طالبان کے حق میں ماضی میں بیانات دینے پر ہی اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی کی جانب سے عمران خان کو "طالبان خان" کا لقب دیا گیا تھا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں جمہوریت کی علمبردار ہیں اور آئین و قانون کے تحت انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں۔ افغانستان پر روسی یلغار کے زمانے میں جب پاکستان نے امریکا کی مدد سے "افغان جہاد" میں حصہ لیا تو یہاں کی مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی افغانستان جاکر افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ روسی افواج کے خلاف لڑے۔ اسی بنیاد پر مذہبی جماعتوں کے مخالفین نے ان پر "ڈالر خوری" کے الزامات بھی عائد کئے۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد دفاع افغانستان کونسل کے نام پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے باقاعدہ امریکا کے خلاف تحریک شروع کی۔ جلسے جلوس کئے اور ریلیاں نکالیں۔ اسی دفاع افغانستان کونسل سے مذہبی جماعتوں کو آکسیجن ملی اور اس اتحاد کو بعد میں انتخابی اتحاد میں بدل کر "متحدہ مجلس عمل" کی بنیاد رکھی گئی جو انتخابات میں اس قدر کامیاب ٹھہری کہ خیبرپختونخوا میں وہ باقاعدہ برسراقتدار آگئی۔ وقت گزرتا گیا اور امریکا اپنے مقاصد حاصل کرتا گیا۔ امریکا کا اصل دشمن القاعدہ تھا جس کا اس نے افغانستان سے خاتمہ کردیا اور آج بیس سالہ مالی و جانی نقصان کے بعد امریکا افغانستان چھوڑ چکا ہے۔ اس انخلا کی قیمت امریکا کو اپنے اتحادیوں کی ناراضی اور اپنی قائم کردہ کٹھ پتلی افغان حکومت کے خاتمے کی صورت میں چکانی پڑی ہے۔ طالبان پلٹ کر دوبارہ افغانستان کے طول و عرض کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو ایک بار پھر اپنا سیاسی مستقبل "شاندار" نظر آنے لگا ہے۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ افغانستان میں آنے والی تبدیلی یہاں کی سیاست میں بھی تبدیلیاں لاسکتی ہے، یہاں کی اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر مذہبی جماعتوں کی جانب متوجہ ہوسکتی ہے کیونکہ آکسیجن صرف مذہبی سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں ملی کچھ ایسے عناصر کو بھی حوصلہ ملا ہے جو یقیناً افغان صورتحال سے شہہ پاکر ایک بار پھر سر اٹھاسکتے ہیں اور گڑ بڑ پھیلا سکتے ہیں۔ پختون قوم پرست جماعتوں کے علاوہ پشتون تحفظ موومنٹ کو بھی طالبان کی فتح سے دھچکا ملا ہے۔ یقیناً آنے والے دنوں میں صورتحال مزید واضح ہوگی کہ افغان صورتحال سے یہاں کی مذہبی یا سیاسی جماعتیں کس قدر متاثر ہوتی ہیں، کون فائدہ اٹھاتا ہے اور کس کو نقصان ہونے والا ہے؟
581