آٹے کی اُڑان

جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں، کھلی مارکیٹ میں آٹا پچھتر روپے فی کلو ہو چکا ہے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کی طرح آٹے کی اُڑان کہاں تک جائے گی،اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ ملک بھر میں آٹے کی دستیابی کے حوالے سے جو صورت حال پیدا ہو رہی تھی،اس پر چند ہفتے قبل ایک کالم لکھا تھا جس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ اگر گمبھیر صورت اختیار کرتے ہوئے معاملات پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے اور گندم و آٹے کا بحران پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس وقت بالکل وہی صورت حال ہے،جیسی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ مطلب یہ کہ بہت سے دوسرے معاملات کی طرح اس تیزی سے زور پکڑتے ہوئے بحران کے سد باب کے لئے بھی حکومت کی جانب سے کچھ نہیں کیا جا سکا۔حالات اس قدر گمبھیر ہو چکے ہیں کہ لوگ آٹے کے حصول کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں اور انہیں روزانہ کی خوراک کا یہ لازمی جزو کہیں سے مل نہیں رہا۔ اگر مل رہا ہے تو ستر پچھتر روپے فی کلو، جبکہ ایک دیہاڑی دار مزدور کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ سارا دن مزدوری کر کے پورے گھرانے کے لئے اتنا مہنگا آٹا خرید سکے۔ لوگوں کو روزگار،رہائش اور سہولت فراہم کرنے کے وعدوں پر برسر اقتدار آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت نے ایک اور معاملے میں خود کو نااہل ثابت کر دیا ہے۔ یہ اس حکومت کا ہی کمال ہے کہ لوگ روٹی کے نوالے نوالے کو ترسنے لگے ہیں،کیونکہ تندور والوں نے بھی روٹی اور نان مہنگے کر دئیے ہیں۔

اس بحران کے پیدا ہونے کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ملک میں گندم کے ذخائر مناسب مقدار میں موجود نہیں، جس کی وجہ سے آٹا کم پیسا جا رہا ہے اور مارکیٹ میں کم دستیاب ہے۔ دوسری یہ کہ گندم کے ذخائر تو وافر موجود ہیں، لیکن حکومت شوگر مافیا کی طرح آٹا مافیا کو بھی قابو کرنے میں ناکام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی وجوہات آٹے کے جاری بحران کا باعث ہیں۔ گزشتہ برس سرپلس سمجھ کر خاصی بڑی مقدار میں گندم برآمد کی گئی، جس کے نتیجے میں نئی فصل آنے کے باوجود یہاں گندم کی قلت واقع ہو گئی۔ ادارہ برائے شماریات کے مطابق گزشتہ برس جنوری میں 239 ملین روپے کی گندم برآمد کی گئی، جبکہ اس سے ایک مہینہ پہلے،یعنی دسمبر 2018ء کے دوران گندم کی برآمدات کا حجم 115 ملین روپے رہا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ میں (جولائی 2018ء تا فروری 2019ء) پاکستان نے 5 لاکھ 13 ہزار 124 میٹرک ٹن گندم کی برآمدات سے 11 کروڑ ڈالر سے زائد کا زر مبادلہ کمایا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 777.44 فیصد زیادہ تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ حکومت نے صرف دو سے چار لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن گندم کی اصل برآمدات بڑھ کر 6 لاکھ 40 ہزار ٹن ہو گئیں۔ گندم کی اس شاہانہ اور بے دریغ برآمدات کا نتیجہ آٹے کے بحران کی شکل میں سامنے آیا ہے اور اس بحران کے پیش نظر اب اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ریگولیٹری ڈیوٹی کے بغیر گندم درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔

یہ ہنگامی اجازت چند روز قبل مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی، یعنی جو گندم ایک سال پہلے فروخت کر کے ہم نے زر مبادلہ کمایا تھا،اب اس سے زیادہ خرچ کر کے گندم درآمد کی جائے گی۔ اسے کہتے ہیں حکومت، اسے کہتے ہیں گڈ گورننس، اسے کہتے ہیں انتظامات…… یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ پلاننگ کمیشن والوں نے وزیر اعظم عمران خان کو گزشتہ سال ستمبر،اکتوبر میں آگاہ کر دیا تھا کہ ملک میں ممکنہ طور پر گندم اور آٹے کا بحران آ سکتا ہے اور اس خدشے کے پیشِ نظر وزیر اعظم نے فوراً ہدایت کی تھی کہ دو لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے تاکہ اس ممکنہ بحران سے بچا جا سکے،لیکن ان کی اس ہدایت پر بروقت عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ گندم اور آٹے کے جاری بحران کے ذمہ دار وہ ادارے اور حکام ہیں، جنہوں نے گندم بروقت درآمد نہیں کی۔ ان سے باز پرس ہونی چاہیے، کیونکہ یہ فرائض سے غفلت کی بد ترین مثال ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے ہدایت جاری کی تھی کہ افغانستان کو گندم کی تمام مصنوعات کی برآمد روک دی جائے،لیکن برآمدات کے اس سلسلے کو بھی روکا نہ جا سکا۔ نہ صرف گندم،آٹا،میدہ اور سوجی کی افغانستان کو برآمدات جاری رہیں، بلکہ ان اشیاء کی سمگلنگ بھی ہوتی رہی۔

ان اقدامات کی وجہ سے بحران تو پیدا ہونا ہی تھا اور وہ اس وقت سب کے سامنے ہے اور سبھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ گندم کے جاری بحران کی ایک وجہ سندھ حکومت کی غفلت بھی ہے،جس نے گزشتہ برس یہ سوچ کر مزید گندم نہ خریدنے کا فیصلہ کیا کہ اس کے پاس سال بھر کی ضرورت کے لئے گندم کے ذخائر موجود ہیں اور اب ان ذخائر میں پڑی بوریوں میں سے مبینہ طور پر بھوسا اور پتھر برآمد ہو رہے ہیں۔ گندم کا بحران پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ مالی سال (2018-19ء) میں گندم کی پیداوار کا تخمینہ 25.195 ملین ٹن لگایا گیا تھا، لیکن اصل پیداوار 24.7 ملین ٹن رہی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کم پیداوار کو پورا کرنے کا جلد مناسب بندوبست کیا جاتا، لیکن اس معاملے میں بھی ویسی ہی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا،جیسی غفلت سرکاری معاملات میں عام طور پر ہوتی رہتی ہے اور جو ایک طرح سے یہاں کے سرکاری حکام کا وتیرہ بن چکا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ گندم اور آٹے کے اس بحران پر قابو پانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں اور اس کے ساتھ گندم کی اگلی فصل کی پیداوار بہتر بنانے پر توجہ دی جائے تاکہ اگلے سال اس طرح کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے…… اور ہاں سب سے زیادہ ضروری جاری بحران کا باعث بننے والے افراد کا محاسبہ ہے۔

بشکریہ روزنامہ آج