گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر کا معرکہ سر کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو ایک نئی آکسیجن ملی ہے۔ وفاق کی حکمران جماعت کی کشمیر میں کامیابی سے مایوس اس کے مخالفین کو فکر لاحق ہوگئی ہے کہ کیا 2023 کے بعد بھی تحریک انصاف ہی ملک میں اقتدار کے مزے لوٹے گی؟ تحریک انصاف کی نظریں اب اگر اگلے عام انتخابات پر ہیں تو اس کا بڑا ہدف سندھ بھی ہے جہاں اس وقت پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہے۔ کچھ باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی قربت حاصل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مفاہمتی دھڑے کے مابین مقابلہ جاری ہے۔ یہ مقابلہ کب تک جاری رہتا ہے اور اس مقابلے کے نتیجے میں کسی کو حصہ بقدر جثہ ملتا ہے، حق سے زیادہ ملتا ہے یا قربت کی تمام خواہشات کو منہ پر مارا جاتا ہے؟ یہ اگلے سال یا الیکشن والے سال ہی پتہ چلے گا، فی الوقت تحریک انصاف کسی بڑی مشکل کے بغیر حکومت "انجوائے" کررہی ہے۔
پی ڈی ایم کا ذکر کیا جائے تو حکومت مخالف اس تحریک میں دم خم نہیں رہا، البتہ جلسوں کی حد تک بات کی جائے تو بلاشبہ مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام لاکھوں کا مجمع اکھٹا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ سوات کا پی ڈی ایم کا جلسہ اور وزیرستان کا جمعیت علماء اسلام کا جلسہ اس حقیقت کی بڑی مثالیں ہیں۔ جب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا 2023 کے بعد بھی تحریک انصاف اقتدار میں رہے گی تو سیاسی مبصرین حالیہ انتخابی کامیابیوں اور تحریک انصاف کو حاصل مبینہ "آشیرباد" کی بنیاد پر جواب اثبات میں دیتے ہیں، کچھ مبصرین دھاندلی کا تذکرہ بھی کرتے ہیں لیکن جب سوال پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی کارکردگی کا اٹھتا ہے تو جواب آئیں بائیں شائیں ملتا ہے۔ یعنی حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے، حکومت کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ برسر اقتدار جماعت تحریک انصاف سے ہی ہے۔ ویسے مختلف جماعتوں سے لوگوں کو جمع کرکے ایک جگہ اکھٹے رکھنا بہت ہی مشکل کام ہے اور پھر جب ایسے لوگوں کو تحریک انصاف کے پرانے اور نظریاتی کارکنوں کے سروں پر بٹھایا جائے تو یقینا وقتاً فوقتاً مشکل چیلنجز سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہم آج کے کالم میں صرف خیبرپختونخوا کے سیاسی منظرنامے کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہاں تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں اتنی اکثریت حاصل ہے کہ اسے کسی بھی جماعت کو اپنے ساتھ بطور اتحادی شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی "زور زبردستی" خود کو تحریک انصاف کی اتحادی قرار دیتی ہے مگر تحریک انصاف کی جانب سے آج تک بلوچستان عوامی پارٹی کو "باعزت گھاس" نہیں ڈالی گئی۔
صرف ایک مرتبہ دیکھا گیا جب سینیٹ الیکشن کے موقع پر تحریک انصاف نے اپنے ممبران کی تعداد کی بنیاد پر باآسانی ملنے والی پانچ نشستوں کے بجائے چھ جنرل نشستوں پر امیدوار میدان میں اتارے، چھٹا امیدوار سرمایہ دار الحاج تاج محمد آفریدی کو بنایا گیا، جو اپنے بھتیجے ایم پی اے بلاول آفریدی کی ناتجربہ کاری، غیر ضروری اوورکانفیڈنس اور ناقابل اعتماد ووٹروں کے کھوکھلے وعدوں کی نذر ہوگئے اور پہلی ترجیح میں اچھے خاصے ووٹ لینے کے باوجود دوسری اور تیسری ترجیح کے ووٹوں کو ترجیح نہ دینے کے سبب تاج محمد آفریدی شکست کھاگئے۔ اب بھی لگتا ہے کہ شاید تاج محمد آفریدی مستقبل میں سینیٹ کا الیکشن لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ الحاج شاہ جی گل، ان کے بھائی، بیٹے اور بھتیجے کی جانب سے نئی سیاسی جماعت بنانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، ان کی نئی سیاسی جماعت، باپ کے معاملات اور سیاسی پالیسی کی خامیوں پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے۔ بات ہورہی تھی تحریک انصاف کی عددی اکثریت کی۔ شاید اسی عددی اکثریت کا زعم ہے کہ تحریک انصاف تیزی سے اپنے منتخب ارکان اسمبلی کی ناراضی کا سامان کرنے میں مصروف ہے۔ بیک وقت پوری کی پوری صوبائی کابینہ کو بھی فارغ کیا جائے تو شاید پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کو کوئی پریشانی نہیں۔ ہر تین چار مہینے بعد ہمیں خیبرپختونخوا کابینہ میں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حقیقی تبدیلی لانے کے چکر میں کارکردگی کو جواز بناکر گورنر شاہ فرمان اور وزیر اعلیٰ محمود خان اپنے دو درجن کے قریب ارکان اسمبلی، سابق یا موجودہ وزرا کو ناراض کرچکے ہیں۔ بہت ساری ناراضیاں ابھی کھل کر سامنے نہیں آئیں۔ ناراض گروپ کا وجود پرویز خٹک کے دور میں بھی تھا، اس دور میں ضیاء اللہ آفریدی کو کرپشن کا الزام لگاکر احتساب کمیشن کے ذریعے گرفتار بھی کروایا گیا لیکن ناراض گروپ آخر تک موجود رہا۔
موجودہ دور میں ہر مرتبہ ناراض ارکان کو بولڈ فیصلے کرکے کلین بولڈ کیا گیا۔ کچھ ارکان کو کھل کر بغاوت کرنے کے لئے آمادہ کیا گیا تو عاطف خان اور شہرام خان ترکئی جیسے وزیر اعظم کے قریب سمجھے جانے والے مضبوط وزرا سمیت تین کابینہ ارکان فارغ کئے گئے تو ناراض ارکان سہم گئے، کچھ نے چپ کا روزہ رکھ لیا تو کچھ تائب ہوگئے۔ اسی طرح تین مشیر اور معاونین فارغ کئے گئے، اس سے قبل اجمل وزیر کی چھٹی کرائی گئی۔ پرویز خٹک نے اپنے بھائی لیاقت خٹک کو خاندان کے اندر پیدا ہونے والے سیاسی اختلافات کے نتیجے میں صوبائی کابینہ سے نکلوایا اور اب ایک اور وزیر ہشام انعام اللہ خان اور مشیر قلندر لودھی کو گھر کی راہ دکھائی گئی۔ ناراضیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں اور الیکشن والے سال جب اپوزیشن جماعتیں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہوں گی اگر تحریک انصاف اپنے لوگوں کو سنبھالنے میں مصروف رہ گئی تو الیکشن کی بڑی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا مشکل ہوسکتا ہے۔ اس وقت وزیر اعلیٰ محمود خان کو بڑی مشکل میں ڈالا جاچکا ہے۔ وزیر اعلیٰ محمود خان بظاہر سارے فیصلے خود کرنے کا تاثر دیتے ہیں لیکن سرکاری محکموں کی ان کی جانب سے براہ راست مانیٹرنگ کا کام باہر یا اوپر سے کی جانے والی مداخلتوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ ظاہر ہے بڑوں کی بات کو بھی توجہ دینی ہے لیکن وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے فیصلے "پڑوس" سے آنے کا تاثر تحریک انصاف کے شیرازے کے لئے کسی بھی طور نیگ شگون نہیں۔ نتھیاگلی کی یخ بستہ ہواوں میں کئے گئے گرما گرم فیصلوں کے دور رس اثرات کا بھی جائزہ لینا ہوگا اور وزیر اعظم عمران خان کو خود بھی دیکھنا ہوگا کہ خیبر پختونخوا میں کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہورہا ہے؟ اور کون کررہا ہے؟ تحریک انصاف کی حکومت کو خیبرپختونخوا میں بظاہر کوئی خطرہ نہیں، خطرہ ہے تو اپنے لوگوں کا، ان اپنوں کو اب پوری توجہ اگلے الیکشن پر مرکوز کرنا ہوگی ورنہ ٹوٹ پھوٹ اور ایک دوسرے پر اعتماد نہ رکھنے والی کمزور اپوزیشن آپ کے لئے بڑا مسلہ بن سکتی ہے۔