پاک فوج

سوال یہ کیا جاتا ہے کہ فوج اداروں کی مضبوطی کے بجائے اداروں کو کمزور کیوں کرتی ہے؟

سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہر گڑبڑ گھوٹالے کے پیچھے فوج کیوں ہے؟

سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ سیاست سے آخر فوج کا تعلق کیا ہے؟

اور ایک سوال یہ بھی اذہان میں تھوپا جاتا ہے کہ فوج پاکستان کی اصل مالک ہے، جمہوریت تو ایک ڈراما ہے!

سوالات تخلیق کرنے والے وارث میر صاحب جیسے عظیم دانشور تو ہیں لیکن ان میں سے بیشتر ملک سے مفرور، خود ساختہ جلا وطن اور پاکستان کی نظریاتی اساس پر تحفظات رکھنے والے وہ حجتی ہیں جو شاید اپنی والدہ سے بھی چلتے پھرتے یہ سوال ضرور کرتے ہوں گے کہ ’’ یہ ابو جو تصویر میں نظر آرہے ہیں ہمارے ہی ہیں نا‘‘؟ …میرا بھی ایک سوال ہے کہ یہ فوج کیا ہے؟ کون ہیں یہ لوگ؟ کیا ان کی ناکیں چپٹی، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، بالوں کا رنگ برگنڈی، چہرے چٹے، وردی کالی، زبان اردو کے بجائے چینی، لاطینی، عبرانی، سنسکرت یا فرانسیسی ہے؟ کیا یہ ہمارے وطن میں اڈے بنا کر آئے ہیں؟ آخر یہ ہیں کون؟ راجا محمد سرور سے لے کر حوالدار لالک جان تک انھیں مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے نام پر نشان حیدر کیوں دیا جاتا ہے، جب یہ بقول بیرونی دانشور ’’ہم میں سے نہیں ملک کے اصل مالک ہیں۔‘‘

نفرت کرتا ہوں میں ایسی غلیظ فکر کے پروردہ ایجنٹوں سے جو ملک کے ایجنٹ بننے کے بجائے اغیار کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں اور پاک فوج کی حمایت میں بلند آوازوں کو’’ بوٹ پالش‘‘ کے القاب سے نواز کربھد اڑاتے ہوئے اپنے تئیں سچائی کا خارجی فریضہ سرانجام دیتے ہیں…

حضور والا! کم از کم میں تو کسی کا نمک خوار نہیں، نہ اندرون ملک کاروبار نہ بیرون ملک بے نامی اکاونٹس! مجھے تو اب تک گھر کے ڈاکیومنٹس رکھوانے کے باوجود 2 کروڑ کا قرضہ نہیں مل سکا اور یہاں لوٹنے والے نہ جانے کیا کیا ہضم کیے بیٹھے ہیں؟میں تو تہمتوں کی زد میں بدنام کیا جاتا ہوں اور آپ کی نگاہ میں’’اصل مالک‘‘ مدد تک کرنے کو تیار نہیں! آپ کی تو نہیں لیکن میری جاسوسی بھی کی جاتی ہے، اور بھی بہت کچھ ہے! لیکن میں ’’ وطن فروش‘‘ نہیں، شخصیات کی بنیاد پر اداروں کو پرکھنے کے بجائے ملکی مفاد کی عینک سے اپنی سوہنی دھرتی کو دیکھنے کا عادی ہوں، مجھے اپنی پاک فوج پر ناز ہے، رینجرز کے ہاتھوں بلال اکبر صاحب کے زمانے میں گرفتار ہوا، حراست میں رہا لیکن پاکستان رینجرز میرا اعزاز ہے، فرنٹیئر کانسٹیبلری سرحدوں کی پرواز ہے، بحریہ اور فضائیہ دشمن کے لیے طوفانی لہر اور طائر لاہوتی ہیں…ہاں اگرپاکستان کے اصل مالک فوجی ہیں تو اس میں کیا غلط؟ آپ تو بیرون ملک مقیم اپنا گھر خالی چھوڑ چلے، اب حفاظت کرنے والا ہی مالک ہے کیونکہ مالک نے تو اپنا مالک اور ملک دونوں ہی بدل لیا! یہ میری طرح کے میرے اپنے لوگ ہیں ، ان کی بھی ماں، بہن، بیوی، بیٹی، بیٹا اور باپ ہے، کوئی گاؤں میں رہتا ہے تو کوئی شہر،میں، کوئی ان پڑھ وفادار ہے تو کوئی لکھا پڑھا محبت کا شاہکار ہے، کسی نے اپنے بچے گنوادیے مگر اب بھی پاکستان اس کا پیار ہے، حق تلفی کس کے ساتھ نہیں ہوتی؟ میں داستان سنانے بیٹھوں تو آواز نہیں نکلے گی، ہاں بوٹ پالش کرتا ہوں مگر اپنی دھرتی پر کرتا ہوں، اگر میرے مہاجر اجداد ہجرت نہ کرتے تو آج مودی اور بپن راوت کی جبری بوٹ پالش کا شکار ہوتا، بھارت میں تیسرے درجے سے بھی بدتر حالت میں ہوتا….پاکستان ایک ایسا عظیم ملک ہے جہاں وفا کے پروانے تو اس کے گرد گھومتے ہی ہیں لیکن غداروں کو بھی یہ روز روٹی کھلاتا ہے،پالتا ہے اور ان کے دھرتی سے بغض بھرے بھبکے اڑاتے دہنوں کو کبھی نہیں روکتا چاہے وہ دہن کسی ملا کا ہو یا بنگلہ دیشی میر کا… ہاں یہ ہر اس ادارے کو کمزور کرتی ہے جو احمد آباد سے آپریٹ ہوتا ہے، امریکا سے ہدایات لیتا ہے اور اسرائیل سے پیسہ، ہاں یہ جنریشن آف ماڈرن وار کی تھیوری میں اب ففتھ جنریشن وار والوں گڑبڑ گوٹھالے کے لیے چوکس ہے، ان کی ہر’’ مس انفارمیشن‘‘ کو مسز بنا کر چھوڑتا ہے…

اپنی افواج کے خلاف بکواسیات کے اقوال رزیلہ کے احیا سے پہلے شکم حرام سے ماں کے ہاتھ کے پراٹھے، دیسی گھی کے کھانے اور چٹور پن کے وہ تمام لوازمات بیت الخلا کے بڑے خلا میں جا نکالیے جو اس دیس میں رہ کر دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کی سماعت کے بعد دودھ سے لے کر گلے تک بھرے پڑے ہیں، کٹوادیجیے ان ٹانگوں کو جو پاکستان کی دھرتی پر اترا کر چلا کرتی تھیں اور اکھاڑ دیجیے اس زبان کو جو اسکول کی اسمبلی میں یہ پڑھا کرتی تھی ’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔‘‘

جناب قمر باجوہ صاحب میں آپ سے دن کی روشنی یا رات کی تاریکی میں بھی نہیں ملا، اول تو کوئی مجھے ملنے نہیں دیتا اور دوئم شاید آپ ملنا بھی نہیں چاہتے مگر آپ نے بالکل درست کہا،آپ مجھے برا کہہ دیں، میرے کسی افسر کو برا کہہ دیں ، برداشت کرلوں گا لیکن بحثیت ادارہ پاک فوج کو اگر برا کہیے گا تو نہیں چھوڑوں گا‘‘ واللہ نہ چھوڑیے گا، یہ اداروں کی مضبوطی اور پاکستان کی سالمیت کا کھلا پیغام ہے!!!!

بشکریہ روزنامہ آج