وبائی مرض سے بحالی کے بعد

پاکستان مالی بد عنوانی اور عالمگیر وبا کورونا کے باعث پیدا ہونے والے مالیاتی بحران سے نکلنا شروع ہوگیا ہے۔ ہمیں ایک مضبوط علمی معیشت میں منتقلی کی حکمتِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اعلیٰ مقام حاصل کرنے کیلئے ہمیں کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے نظام حکمرانی میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ موجودہ نظام ایک بہت بڑا ڈھونگ ہے کیونکہ اس میں اقتدار اور فنڈز نچلی سطح تک نہیں پہنچ پاتے جس کی وجہ سے بلدیاتی ادارے اختیارات سے محروم رہتے ہیں۔ اس نظام کے تحت صوبائی حکومتوں نے بہت لوٹ مار کی اور غربت کی سطح میں اضافہ ہوتا رہا۔ہمیں اپنے نظامِ عدل میں بھی سخت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ تمام مقدمات کا فیصلہ 90دن میں ہواور اگر یہ ہدف حاصل کرنے میں نا کامی ہو تو ذمہ دار کو تبدیل کر دینا چاہئے۔ ہر جج کی کارکردگی کا پیمانہ زیاد ہ سے زیادہ مقدمات کے فیصلے ہوناچاہئے اور جو اس پر پورا نہ اترتا ہو اسے تبدیل کر دینا چاہئے۔ ہمیں انتظامی امور میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تعلیم اور صحت عامہ کے بجٹ میں کم از کم پانچ گنا مالی اضافہ کرنا چاہئے، سنگاپور ، چین اور کوریا جس طرحنے ترقی کی ہے بالکل انہی خطوط پر عمل پیرا ہوکر ایک مضبوط علمی معیشت تیار کرنے پر زُور دینا چاہئے۔ اس کیلئے اعلیٰ سائنسی مصنوعات کی تیاری اور برآمدات پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم، ٹیکنالوجی، اور جدت طرازی پر زُور دینے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم پاکستان نے ایک مضبوط نالج اکانومی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جس کی صدارت وہ خود کرتے ہیں اور میں وائس چیئرمین ہوں۔ اس ٹاسک فورس میں متعدد ممبرا ن وَفاقی وُزراء ہیں جن میں امورِ خزانہ، منصوبہ بندی، سائنس و ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی مو ا صلا ت کے وزرا شامل ہیں ۔ اس ٹاسک فورس کے تحت اندرون و بیرون ملک سائنس دانوں اور اعلیٰ انجینئرز کےتعاون سے بہت سارے اہم منصوبے مرتب کئے گئے ہیں جن کی مجموعی لاگت 128ارب روپے ہےجبکہ گزشتہ سال 24.31ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ تاہم اس میں80فیصد سے زیادہ کی کمی کی گئی ہے اور اب یہ رقم محض 2.62ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ یہ فیصلہ ممکنہ طور پر کوروناوائرس کی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے کیا گیا۔

کیونکہ کووڈ 19کی وجہ سے صحت کے شعبے اور احساس پروگرام کے لئے فنڈز درکار تھے، جس نے غریبوں کو کافی حد تک امداد فراہم کی۔اس وبا ئی صورتحال اور مالی بحران سے باہر نکلتے ہی موجودہ حکومت کوایک مضبوط علمی معیشت قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اہم شعبہ جات مثلاً انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں جیسا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی)، انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی اُو ٹی)، سائبر سیکورٹی، اعلیٰ درجے کی زراعت، صنعتی بایو ٹیکنالوجی، جینومکس،مائیکرو الیکٹرانکس، معدنی ترقی، متبادل توانائی اور اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ کام کرنا ہوگا۔ہمارےپاس بڑے مواقع موجود ہیں، آئیے مصنوعی ذہانت پر غور کریں۔ میک کینسی گلوبل کے مطابق، 2025تک مصنوعی ذہانت سے آمدنی کا تخمینہ15.7کھرب امریکی ڈالر سالانہ ہوگا۔ اگر پاکستان اس بڑی مارکیٹ کا صرف ایک فیصد بھی حاصل کرلے تو ہماری صرف اسی بنیاد پر سالانہ تقریباً160ارب ڈالر کی برآمدات ہوسکتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی حالیہ پیشرفت،انسانی کوششوں کے تقریباً ہر پہلو کو تبدیل کرنے کی ضامن ہے جن میں زراعت ،صحت، مینو فیکچرنگ ، دفاع و تعلیم وغیرہ شامل ہیں۔

ڈاکٹر رے کر زوبیل نے پیشگوئی کی ہے کہ 2045تک جب ’’یکسانیتـ‘‘کی حالت ہوگی، مشینیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گی اور جلد خود کو درست کر سکیں گی۔ وہ منطق اور تخلیقی صلاحیتوں میں انسانوں سے کہیں زیادہ ذہین ہوجائیں گی۔ وہ ہمیں ہماری حیاتیات کو اعلیٰ ہارڈ ویئر سے تبدیل کرنے کی صلاحیت فراہم کریں گی تاکہ 2030کی دہائی تک ہم انسانی دماغ اور شعور کو الیکٹرانک میڈیا پر کاپی کر سکیں۔ جیسا کہ مکمل طور پر عمیق مجازی حقیقت تیار ہوتی ہے۔ اب ہمیں جسمانی طور پرکسی جگہ موجود ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی لہٰذا دفاتر کی جگہیں بھی متروک ہو جائیں گی۔ لوگ ورچوئل دُفاتر ’’ٹیلی کمیوٹ‘‘کے ذریعے کام کر یں گے ۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کو ملازمت کے لئے مخصوص شہروں میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مصنوعی ذہانت سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اگلی چند دہائیوں میں انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ دےگی اور روبوٹک سسٹم پڑھنے، لکھنے کے ساتھ ساتھ جذبات پر ردِ عمل ظاہر کرنے کی صلاحیتوں کو تیار کرے گا۔

اسی طرح کے مواقع اب بڑی تیزی سے ارتقائی شعبے انٹرنیٹ آف تھنگز میں پیدا ہو رہے ہیں ، یہ متبادل توانائی، توانائی کے ذخیرہ کرنےکا نظام، اگلی نسل کی جینو مکس، صنعتی بایو ٹیکنا لوجی ، اعلیٰ درجے کی زراعت اور 3D پرنٹنگ جیسے میدانوں میں بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ ان نئی پیشرفتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے پاکستان میں ایک اچھوتی جامعہ، پاک آسڑیا یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنس اینڈ انجینئرنگ قائم کی گئی ہے۔ جس کا افتتاح وزیر اعظم پاکستان نے ستمبر 2020میں کیا ہے ۔ اس سے ہمارے طلبا کو آسڑیا اور چین کے اعلیٰ پروفیسروں کے ذریعہ تربیت دی جائے گی۔ اس یونیورسٹی کا مرکز ایک ٹیکنالوجی پارک ہے جہاں غیر ملکی اور مقامی صنعت کی شراکت سے تحقیقی و تجارتی بنیادوں پر نئی مصنوعات تیار کی جائیں گی اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ اس سے پاکستان میں ایک نئے انقلاب کی شروعات ہوںگی۔

ایک اور دلچسپ شعبہ نیورو سائنس کا ہے۔ نوبل انعام یافتہ جیمز واٹسن کے مطابق ’دماغ آخری اور عظیم ترین حیاتیاتی محاذ ہے جو اب تک ہم نے اپنی کائنات میں دریافت کیا ہے۔ اس میں سینکڑوں اور اربوں خلیے کھربوں روابط کے ذریعے منسلک ہیں۔ پاکستان کی اصل دولت اس کے نو جوان ہیں، پاکستان کے شہریوں کی اوسط عمر22سال ہے اور 65سال سے زیادہ عمر کےلوگ آبادی کا صرف4فیصد ہیں جو ہمارے لئے بہت فائدہ مند ہے،تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرکے ہم نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔

صاحبِ تحریر:اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے سائنس، ٹیکنالوجی اور انوویشنUNESCAPخطے کے شریک چیئرمین ،سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور سابق چیئرمین HECہیں۔

SOURCE JAMG 

بشکریہ روزنامہ آج