انجام گلستان کیاہوگا

 مدت تو ہوگئی ہے کالم لکھنے کو‘دراصل ملک کی سیاسی صورتحال اتنی دگرگوں ہوگئی ہے کہ کچھ لکھنے کو دل ہی نہیں چاہتا لیکن ہم کب تک اپنے دل کو قابو میں رکھیںگے‘2018ءکے انتخابات امےدوں اور امنگوں کےساتھ ہوئے ان انتخابات کا بڑا نعرہ تبدیلی تھا‘ لوگ نئی قیادت کو دیکھ کر بڑے خوش ہورہے تھے ‘ بڑے مطمئن تھے کہ چلو اتنے سال بعد سہی اب تو حالات بدلیں گے ‘انتخابات تو ہوگئے لیکن ساتھ ہی سیاستدانوں کا احتساب بھی شروع ہوگیا‘بڑی پارٹیاں میدان میں اتریں لیکن کوئی ایک پارٹی بھی اکیلے کامیابی حاصل نہ کرسکی ‘گٹھ جوڑ شروع ہو گئے ‘ سیاسی پارٹیوں کا وہی پرانا حربہ اتحاد اورہم خیال پارٹیوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کا بھی نتیجہ اچھا نہیں نکلا‘پہلی بار سیاسی پارٹیاں اکٹھی تو ہوگئیں مگر مقصد حصول اقتدار تھا‘پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ سیٹیں لیں لیکن اکیلے حکومت بنانے کی پوزےشن مےں نہیں تھی‘اس صورتحال کو دیکھ کر نظر ٹھہرتی ہے مولانا فضل الرحمن پر انہوں نے واقعی کمال کیا‘ اپوزیشن کی کئی پارٹیوں کے ہوتے ہوئے بھی اتحاد کی ضرورت محسوس کی گئی اس سارے سیاسی منظرنامے میں مولانا فضل الرحمن فائدے میں رہے وہ اپوزیشن اتحاد کے سربراہ بنائے گئے نہ جانے انہوں نے کون سے پتے کھیلے کہ پکے ہوئے سیب کی طرح لیڈرشپ ان کی جھولی میں آگری‘ہمارا تو خیال تھا کہ انتخابات کے بعد تبدیلی سیاست شروع ہوگی‘حکومتیں بنےں گی اور عوام کے مسائل حل ہوں گے لیکن پھانسا پلٹ گیا‘ انتخاب سے زیادہ اہمیت احتساب بےورو کی بن گئی۔

ایسے معلوم ہوتا رہا کہ گویا ان انتخابات کامقصد احتساب کو مضبوط کرنا تھا‘ احتساب بےورو نے بھی حکومت کےساتھ قربت پیدا کرلی اور سیاستدانوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی‘اس موقع پر تو صورتحال ایسی بن گئی کہ جیسے انتخاب کے بجائے احتساب زیادہ اہم ہوگیا‘سیاستدانوں کو جیلوں میں بھی جانا پڑا اور عدالتوں میں بھی پیشیاں بھگتنا پڑیں‘یہ نظر نہیں آرہا تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن سیاستدانوں کو ٹف ٹائم ملا‘شاےد اونٹ نے نہ ہی بیٹھنے کی قسم کھائی تھی‘ہم اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اب تک کوئی بڑا منصوبہ سامنے نہیں آسکا ہے‘سی پیک کے منصوبے سے بڑی امیدیں تھیں اسے بھی چین مشکل سے سنبھال رہا ہے‘غریبوں کےلئے علاج کے کارڈ جاری کئے گئے ‘نوجوانوںکےلئے قرضوں کی سکیمیں متعارف کرائی گئیں ‘کسانوں کےلئے بھی خصوصی مراعات دی جا رہی ہیں یہ سب تو ہورہا ہے لیکن ایسا ہر حکومت کے دور میں ہوتا ہے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو نوازنے کی کوشش ہوتی ہے ویسے اس وقت قومی سیاست کا کوئی رخ متعین نہیں ہے ہر سیاسی پارٹی تحفظات رکھتی ہے ‘عمران خان اس کشمکش کی سیاست میں ڈٹے رہے اور اپوزیشن کے منصوبے ناکام بنانے میں پیش پیش رہے ‘عوام نے جتنے شوق اور جوش و خروش کا مظاہرہ انتخابی مہموں میں کیا تھا وہ کام نہ آیاوہی پرانی سیاست اور سیاسی حربے بحال ہوگئے۔اب معلوم نہیں پڑ رہا ہے کہ آگے کیا ہوگا‘ سن 18گزرگیا ‘19بھی گزر گیا اور اب 20گزر رہا ہے لگتا ہے کہ یہ سال بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہوئے گزر جائے گا‘ہمیں توافسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ عوام نے آخر سیاستدانوں کا کون سا جرم کیا ہے کہ ہر حکومت ان کےساتھ چھےڑخانی کرتی ہے‘سیاستدان جھوٹے سچے وعدے کرکے ووٹ لےکر اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہوجاتے ہیں۔

عوام توکیا سیاستدان اپنے قریبی کارکنوں کوبھی ہاتھ نہیں آتے بلکہ یہ جملہ تو ہمیشہ سنتے رہے ہیں کہ” صاحب میٹنگ میں ہےں“ ایسا مرکز میں بھی ہوتا ہے اور صوبوں میں بھی‘ملک کی معیشت پہلے سے زیادہ خراب ہوچکی ہے حکومت وقت مانگتی ہے اور سیاستدان اپنی بات کرتے ہیں‘ایک زمانہ تھا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان صدر تھے اور ان کے بھائی خان نادر خان اپوزیشن لیڈر تھے ایوب خان نے بھی کابینہ میں خوب بھرتیاں کی تھیں بیوروکریسی میں بھی من مانے افسر بٹھائے تھے میرٹ اس وقت بھی نہیں تھا ایوان کی دگرگوں صورتحال دیکھ کر خان بہادرخان نے ایک شعر کہا :
بربادگلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا

 

بشکریہ روزنامہ آج