میرے ایک دوست ہیں جو ہر بات پر کہتے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا، کئی بار سنجیدہ سے سنجیدہ حالات میں کہتے ہیں پریشان نہیں ہونا سب ٹھیک ہو جائے گا، میں نے کئی مرتبہ کہا یار اتنی سنجیدہ بات ہو رہی ہوتی ہے اور آپ کہہ دیتے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا، بات میں سے ساری سنجیدگی ختم ہو جاتی ہے۔۔ وہ ہنس پڑتا ہے اور کہتا ہے کچھ بھی ہو پریشان نہیں ہوتا کیونکہ پریشانی کوئی حل نہیں۔۔ ویسے بھی اس ملک کو دیکھ لیں بڑے سے بڑا حادثہ، چوری، ڈاکہ، کرپشن کچھ بھی ہو جائے پہلے دن شور ہوتا ہے پھر سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ یہ ملک اللہ کے کرم سے ایک آٹو سسٹم پہ چل رہا ہے، جہاں ہر شخص مال بنانے کے چکر میں ہوتا ہے پھر بھی سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔۔ اور درست بھی ہے روز ایسی خبریں آتی ہیں کہ جیسے تباہی ہو گئی ہو لیکن پھر سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔تازہ ترین :راولپنڈی کی رنگ روڈ میں کرپشن کا انکشاف، وزیر اعظم نے انکوائری کمیٹی بنا دی، راولپنڈی شہر کی انتظامیہ کو اوپر سے نیچے تک تبدیل کر دیا گیا۔ ایک وفاقی وزیر اور ایک معاون خصوصی پر الزامات، بڑی خبر آ گئی، زلفی بخاری نے معاون خصوصی کا عہدہ چھوڑ دیا۔۔ دوسرے وفاقی وزیر غلام سرور خان ہیں انہوں نے کل ایک جذباتی پریس کانفرنس کر دی، اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو غلط قرار دے دیا۔سب شریف لوگ ہیں اس لیے سینہ تان کر کھڑے ہیں، بدمعاش اور لٹیرے تو وہ ہیں جو اپوزیشن میں ہیں یا اپوزیشن کرتے ہیں، جو اپوزیشن کو چھوڑ کر حکومت میں آ جائے وہ تو چور ہو ہی نہیں سکتا۔ اب زلفی بخاری کو ہی لیجئے ، ان پر ایک الزام لگا اور انہوں نے اپنے عہدہ کو ٹھوکر مار دی۔۔ جب تک مجھ پر لگے الزامات غلط ثابت نہیں ہو جاتے میں عہدہ نہیں سنبھالوں گا، زلفی بخاری کا دبنگ قسم کا بیان۔۔ ساتھ ہی جذبات میں آتے ہوئے کہنے لگے کہ میں اس ملک کی خدمت کے لیے برطانیہ چھوڑ کر پاکستان آیا ہوں۔یہ ایک جانب کی تصویر ہے جو ہمارے خدمت گزار قسم کے اینکر حضرات پیش کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھے تو سہی کہ جناب، برطانیہ آپ ملک کی خدمت کے لیے چھوڑ کر آئے ہیں تو شہریت بھی چھوڑ آتے، اپنا کاروبار بھی پاکستان منتقل کر لیتے۔ پاکستان کو آپ کے یہاں آنے سے کیا فرق پڑا ہے؟۔ آپ کتنا زر مبادلہ پاکستان لائے ہیں؟۔ آپ نے پاکستان آ کر کتنی صنعتیں قائم کیں؟۔ بس فائدہ پہنچا ہے تو آپ کو پہنچا ہے کہ جہاں آپ عام آدمی کی طرح آتے تھے وہاں اب آپ وی آئی پی بن کر رہتے ہیں، آپ کے پاس رینجرز اور ایف سی کے سپاہی ہیں جو آپ کی حفاظت پر مامور ہیں۔ آپ اب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو آپ کو پروٹوکول ملتا ہے جو پہلے دستیاب نہ تھا۔ آپ ان اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں جہاں آپ کی ضرورت نہیں ہوتی یا جہاں آپ کو بلایا نہیں جاتا۔ یہی غلام سرور صاحب تھے جنہوں نے اس بات پر اعتراض کیا تھا کہ زلفی بخاری کیوں پی آئی اے کی ملکیت نیو یارک امریکا میں روز ویلٹ ہوٹل کی نجکاری کے حوالہ سے ہونے والے اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے۔ یہ اس وقت اس کی ڈیل بھی کرانا چاہ رہے تھے اور بعد میں بھی اس کی کوشش کرتے رہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس بات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ انہوں نے ائیرپورٹ پر بیٹھ کر زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکلوایا اور انہیں اپنے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے لے کر گئے۔ کہا گیا کہ دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ غلط ثابت کر دیا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کو اپنے ان دوستوں کے حوالہ سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنہیں انہوں نے معاون خصوصی مقرر کر رکھا ہے لیکن وہ دوسرے ممالک کی شہریت رکھتے ہیں ان میں بھی زلفی بخاری شامل ہیں لیکن اس کی وجہ بہت خاص ہے کہ مبینہ طور پر وہ وزیر اعظم کے کئی بیرون ملک دوروں کی کوریج کے لیے لے جائے جانے والے میڈیا کے نمائندوں کو ٹکٹ اور ہوٹل کے اخراجات ادا کرتے رہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو لگائے گا وہ اپنی رقم واپس بھی تو نکلوائے گا۔ اسی لیے تقریباً دو سال پہلے نیب نے خبر ذرائع سے جاری کی کہ ایک حکومت شخصیت کی کروڑوں روپے کی ٹی ٹیز پکڑی گئی ہیں، میں نے نیب کے اعلیٰ افسر سے شخصیت کا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ ان کا نام زلفی بخاری ہے۔ تاہم پھر اس کے بعد نیب نے دوبارہ کبھی نہیں بتایا کہ اس کیس پر کیا پیشرفت ہوئی؟۔ وجہ صاف ظاہر ہے، کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔
دوسری ممتاز شخصیت جو اس کیس میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں وہ ہیں غلام سرور خان۔۔ یہ پہلے قدرتی وسائل کے وزیر تھے اور وہاں کوئی کارکردگی نہ دکھانے کے باعث ان سے خوش ہو کر انہیں ہوابازی کا وزیر بنایا گیااور انہوں نے پی آئی اے کے حوالہ سے ایک ایسا شاندار بیان دیا جس نے پی آئی اے کا خسارہ کم کر دیا۔ یعنی انہوں نے پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا الزام لگایا جس کے بعد دنیا کے اکثر ممالک نے پی آئی کی پروازوں پر پابندی لگا دی، نہ جہاز اڑیں گے نہ فیول ضائع ہو گا، اس فارمولہ کے تحت پی آئی اے کا خسارہ ہی ختم کر دیا۔ پی آئی اے کو اس طرح سے منافع بخش ادارہ بنانے کی کوششوں پر عنقریب انہیں ستارہ جرات بھی دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ان سے چند ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کی غربت بھی نہیں دیکھی گئی اور انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ان کی فائلیں فروخت کروا کر ان غریبوں کا نقصان پورا کرا دیں۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کے صاحبزادے نے حق ادا کر دیا اور غریب ہاﺅسنگ سوسائٹی والے بے چارے بھی تقریباً ایک سو بیس ارب روپے کما پائے، اب اگر ان غریبوں کی دیہاڑی لگنے سے وہ لوگ پریشان ہیں جنہوں نے ان سے سوسائٹی کی فائلیں اپنی جمع پونجی فروخت کر کے خریدی ہیں تو اس میں وزیر صاحب کا کیا قصور ہے؟۔وہ اپنی لالچ کی وجہ سے مارے گئے ہیں۔۔ اب پتا نہیں کیوں کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انکوائری تو ایک بہانہ ہے، اس انکوائری میں چند قربانی کے بکروں کی قربانی دی جائے گی۔۔ باقی سب کو کلین چٹ مل جائے گی۔ کچھ ایسا ہی عمل ان ناراض ارکان کو منانے کے لیے جہانگیر ترین کے ساتھ بھی کیا جائے گااور انہیں بھی سرکاری طور پر مسٹر کلین قرار دیا جائے گا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے، یہی پیغام ان کو ایک وفاقی وزیر کے ذریعہ پہنچایا گیا ہے کہ گروپ بندی نہ کرنا نقصان ہو جائے گا اور اگر ڈیل کا تاثر دئیے بغیر خاموش ہو گئے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہو گا۔