452

اقبالؒ کا فلسطین

اسلام آباد کے جناح ایونیو پر ہزاروں مرد و خواتین ’’فلسطین کو آزاد کرو‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ ایک خاتون نے گود میں چند ماہ کا بچہ اٹھا رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ میں فلسطین کا پرچم تھام رکھا تھا۔ بچہ اپنی ماں کے ہاتھ میں تھامے ہوئے پرچم کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

ایک پاکستانی بچہ اپنی ماں کی گود میں فلسطین کا سبق سیکھ رہا تھا۔ میں اس خاتون کے قریب پہنچا اور سلام کرکے پوچھا کہ بہن آپ اس جلوس میں اپنے چھوٹے سے بچے کو کیوں لائی ہیں؟ خاتون نے پُرعزم لہجے میں کہا کہ میں اپنی گود میں بچہ اٹھا کر فلسطین کی ان مائوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے آئی ہوں جن کے بچے اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئے۔ ایک بچی نے اپنے سر پر کاغذ کا ایک تاج سجا رکھا تھا۔

اُس تاج پر انگریزی میں لکھا ہوا تھا ’’فلسطین کو آزاد کرو‘‘۔ میں نے بچی سے پوچھا کہ آپ کے کرائون پر کیا لکھا ہے؟ ذہین بچی نے فَٹ سے جواب دیا کہ یہ میں نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے میں فلسطین کی آزادی چاہتی ہوں۔ میں نے پوچھا بیٹی آپ کون سی کلاس میں پڑھتی ہو؟ بچی نے کہا انکل میں تیسری کلاس میں پڑھتی ہوں۔ سولہ یا سترہ سال کے ایک لڑکے نے اپنے دائیں رخسار پر فلسطین اور بائیں رخسار پر پاکستان کا پرچم بنا رکھا تھا اور وہ زور زور سے ’’اسرائیل مردہ باد‘‘ کے نعرے لگوا رہا تھا۔ میں نے اس لڑکے سے پوچھا کہ وہ اس جلوس میں کس کے کہنے پر آیا ہے اور اس کی نعرے بازی کا فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس لڑکے نے کہا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ صبح گھر سے نکلا تھا اور اب تک فلسطینیوں کے حق میں تین جلوسوں میں شرکت کر چکا ہوں۔ اس دوران لائوڈ اسپیکر پر جلوس سے خطاب کرنے والے ایک مقرر کی آواز گونجی۔ وہ یہ شعر پڑھ رہا تھا:

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا

شعر سن کر میرے سامنے کھڑے نوعمر لڑکے نے مزید جوش و خروش سے ’’فلسطین کو آزاد کرو‘‘ کا نعرہ لگوایا۔ میں نے پوچھا یہ بتائو کہ یہ شعر کس کا ہے؟ وہ لڑکا مسکرایا اور بولا جناب یہ شعر علامہ اقبالؒ ؒکا ہے اور میرے دادا نے بتایا ہے کہ علامہ اقبال ؒنے مسجدِ اقصیٰ میں نماز بھی ادا کی تھی۔ مجھے میرے سب سوالوں کا جواب مل چکا تھا۔

21مئی کو پاکستان بھر میں یومِ فلسطین منایا گیا۔ شہر شہر جلوس نکلے۔ فلسطین کے حق میں جلوس تو پوری دنیا میں نکالے جا رہے ہیں لیکن فلسطینیوں کے حق میں جتنے لوگ پاکستان میں نکلے ہیں اتنے تو کئی عرب ممالک میں بھی نہیں نکلے۔ ایسے ہی جلوس 22مئی کو بھی نکلے اور 23مئی کو کراچی میں نکلنے والا جلوس اور جلسہ تو بےمثال تھا۔ ہر جلوس میں فلسطین کے ساتھ ساتھ کشمیر کا بھی ذکر ہوتا ہے۔

پاکستان کے عوام نسل در نسل فلسطین اور کشمیر کی تحریک آزادی سے وابستہ ہیں۔ بعض عرب ممالک کے بادشاہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور اسرائیل آپس میں سفارتی تعلقات قائم کر لیں لیکن یہ بادشاہ نہیں جانتے کہ جس شاعر نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا وہ شاعر اپنی زندگی میں ہمیں خبردار کر گیا کہ ان بادشاہوں کی بات نہ سننا۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ ؒکی زندگی میں 1931بہت اہم سال تھا۔

اس سال 14اگست کے دن انہوں نے لاہور کے ایک جلسے میں کشمیر کی تحریک آزادی کا اعلان کیا اور اسی سال 6دسمبر کو علامہ اقبالؒ مؤتمر اسلامی کی طرف سے فلسطین پر کانفرنس میں شرکت کیلئے یروشلم پہنچے۔

علامہ اقبالؒ ؒبیت المقدس کے قریب واقع ہوٹل فندق مرقص میں ٹھہرے۔ 6دسمبر 1931کی شام بیت المقدس سے متصل روفتہ المصارف میں مؤتمر اسلامی کا تعارفی اجلاس ہوا جس کے بعد علامہ اقبالؒ ؒمسجد اقصیٰ میں آئے۔

پہلے انہوں نے مولانا محمد علی جوہرؒکی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ پھر مسجد اقصیٰ میں نماز مغرب ادا کی۔ یہیں پر تلاوت اور نعت خوانی کی ایک محفل میں شرکت کی۔ نماز عشا بھی یہیں ادا کی اور آخر میں علامہ اقبال ؒنے سب شرکا سمیت ہاتھ اٹھا کر عہد کیا کہ وہ مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں بھی قربان کر دیں گے۔

علامہ اقبالؒ ؒسات دن تک مؤتمر کے اجلاسوں میں شریک رہے اور روزانہ مسجد اقصیٰ میں آکر نماز ادا کرتے تھے۔ یہاں کئی مرتبہ انہوں نے فاتح اندلس طارق بن زیاد کے متعلق اپنے فارسی اشعار سنائے جن کا عربی ترجمہ ایک عراقی عالمِ دین کیا کرتے۔ علامہ اقبالؒ ؒقاہرہ کے راستے سے واپس ہندوستان آ گئے لیکن فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے ساتھ ان کا رشتہ تادمِ مرگ قائم رہا۔

3جولائی 1937کو انہوں نے رائل کمیشن کی رپورٹ کے خلاف ایک تفصیلی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی برطانوی کوششوں کی کھل کر مذمت کی اور واضح کیا کہ اس سازش کو روکنے کیلئے ترک اور عرب آپس میں اتحاد قائم کریں۔ اسی بیان میں علامہ اقبالؒ نے کہا کہ ’’دوسرا سبق یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے وقت عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ موجودہ حالات میں یہ بادشاہ اس قابل نہیں کہ وہ اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کوئی صحیح فیصلہ کر سکیں‘‘۔

وفات سے چند ماہ قبل علامہ اقبالؒ ؒنے 7اکتوبر 1937کو قائداعظم ؒکے نام اپنے خط میں مسئلہ فلسطین پر اپنے اضطراب کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ آل انڈیا مسلم لیگ فلسطین پر صرف قراردادیں منظور نہیں کرے گی بلکہ کچھ ایسا کرے کہ فلسطینی عربوں کو فائدہ بھی ہو۔ قائداعظم ؒنے نہ صرف فلسطینیوں کیلئے فنڈ قائم کیا بلکہ 3دسمبر 1937کو پورے ہندوستان میں یومِ فلسطین منایا۔

اس سے قبل 19جون 1936کو بھی یومِ فلسطین منایا جا چکا تھا۔ 1938میں 8فروری اور پھر 26اگست کو یومِ فلسطین منایا گیا اور پھر 23مارچ 1940کو لاہور میں قرارداد پاکستان کے ساتھ ساتھ قرارداد فلسطین بھی منظور کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ 1948میں قائداعظم ؒمحمد علی جناح نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ فلسطین سے محبت ہر سچے پاکستانی کے خون میں شامل ہے کیونکہ یہ محبت ہمیں نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ جب تک علامہ اقبالؒ کے فلسطین کو آزادی نہیں ملتی جناحؒ کا پاکستان کسی عرب بادشاہ یا کسی سامراجی طاقت کی خواہش کا غلام نہیں بن سکتا۔

SOURCE JANG 

بشکریہ جنگ نیوزکالم