212

میرا اورسید مبشر الماس کا مشترکہ دکھ 

ہم لکھنے والے لفظوں سے فاصلوں کو سمیٹنا چاہتے ہیں مگر سمیٹ نہیں پاتے،آگہی کا ادراک پانے کے باوجود ہماری آنکھوں میں دنیا جہاں کی وسعتیں ٹھہری ہوتی ہیں لیکن کسی لمحے ایسا ہوتا ہے کہ درد لازوال کے بستر پر نیند نہیں آتی شبیں یوں گزرتی ہیں کہ انسان سوچ کے تکئے پر سر رکھے آنکھیں بند کرکے جاگتا رہتا ہیکسی  بچھڑنے والی محبوب ہستی کے چرنوں میں گزری یادوں کے قافلوں کے خیموں کے پردے ہٹا ہٹا کر اپنے اندر اس کی بے پایاں محبتوں کے نقوش دیکھنے کی کوشش کرتا ہے 
مبشر الماس سید کے لفظوں کے لہجے کی تھکن درِ احساس پہ دستک دیتی ہے،بہت کچھ باور کراتی ہے سچ پوچھئے تو جب سر پر چھت باقی نہ رہے تو کیفیت کچھ ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی تنہا مسافر کڑی دھوپ میں کوسوں کا آبلہ پا سفر پیدل طے کرکے آئے اور منزل کا سراغ نہ ملے ایسے میں انسان بے دم ہوکر گر پڑتا ہیکرب  پورے وجود کو کسی آسیب کی طرح گھیر لیتا ہے پھر بھلا کوئی کتنا سفر طے کر سکے گا؟ ایسے حادثوں میں ریزہ ریزہ لوگوں کو چننا مشکل ہوتا ہے جو مزاج آشنا ہیں انہیں یہ شکستگی کتنی افسردہ کرتی ہے اور وہ سید جلال الدین ؒ  جیسی ہستی اذہان  میں جن کے سنگ گزرے منظر مقید ہو کر رہ گئے  اور شفقت ِ پدری میں  بصارت بھی اسی چہرے تک محدود ہو بچھڑے تو ہم بری طرح مات کھا جاتے ہیں،اپنا نشان بھی کھوبیٹھتے ہیں ہم مر ہی تو جاتے ہیں بس کمی یہ رہ جاتی ہے کہ دفنائے نہیں جاتے 
ہم اس سوچ میں غلطاں رہتے ہیں کہ کیسے انہیں گوارہ ہوگا کہ ہم جو اس تصویر کے رنگ ہیں،بھلا وہ اپنے وجود سے کسے جدا کر پائیں گے،اس کی خوشبو ہیں تو وہ ہم سے دور رہیں لیکن کہا ناں کہ یہ سب خوش فہمیاں ہوا کرتی ہیں ان لمحوں میں سناٹے جسم و جاں کو گھائل کرنے لگتے ہیں جی چاہتا ہے چیخ چیخ کر رویا جائے اک شور سنائی دے چاہے وہ اپنی کراہوں کا ہی ہو لیکن یہ چیخیں،یہ کراہیں بھی کہیں اندر ہی گھٹ کر رہ جاتی ہیں تب احساس ہوتا ہے کہ جڑوں سے کٹ کر کوئی پودا ہرا نہیں رہ سکتا 
کبھی سوچئے تو یوں لگتا ہے کہ اس کائنات میں جیسے قدرت نے ازل سے اک امتحان کی صورت رکھ دی ہے اندھیروں اور اجالوں کو یکجا کردیا ہے اور فیصلے کا اختیار خود اپنے پاس رکھ لیا ہے دن کے تعاقب میں رات چلی آتی ہے اور پھر سحر ان اندھیروں کو جذب کرلیتی ہے دونوں کا اک اپنا مزاج اک اپنی رنگینی ہے اور شاید ایسی صورت فطرتیں رکھتی ہیں،کوئی دن کی صورت اُجلی اُجلی تو کوئی اندھیروں میں ڈوبی ہوئی 
ہاں اک اذیت انسان کے ساتھ سدا ہے کہ اس کی ذات سے وابستہ اجالے فوراً ذہن و دل تک رسائی کر لیتے ہیں نگاہوں میں بس جاتے ہیں لیکن اندھیرے اس وقت تک آنکھ سے اوجھل رہتے ہیں جب تک وہ مقابل کو ڈس نہیں لیتے شاید ایسے ہی ڈسے جانے کو تجربہ کہا گیا ہے ورنہ اگر ہر جانب اجالے ہی اجالے ہوتے تو اس لفظ کی بھی ضرورت نہ تھی جو کچھ آپ کے احساس پر بیت رہا ہے اس سے مضمحل ایک آپ کی تنہا ذات نہیں ہے بلکہ جس کرب سے آپ گزرے ہیں اس کرب سے میرے جیسے انسان بھی آشنا ہوئے 
اک ریت بہت اچھی ہے کہ جانے والوں کا منہ ہم ڈھانپ دیتے ہیں خود ہی اپنی نظروں سے اوجھل کر دیتے ہیں کاش اک رسم ایسی بھی ہو کہ دل کی نگری میں بسنے والے جب رخت سفر باندھیں تو وہ بھی رہ جانے والوں کا اسی طرح منہ ڈھانپ دیا کریں یہ سانحہ سید مبشر الماس پر نہیں مجھ پر گزرا ہے سوشل میڈیا پر اس کے احساسات دیکھ کر دل کے بند در کھلے ہیں اور آنکھوں میں دھواں اُتر آیا ہے کل جو گزر گیا وہ یہاں بہت سوں کی نظر میں دفنایا ہوا لمحہ ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا یادوں کا گوشہ ویران رہتا  ہے یہ جب بھی عود کر آئیں تو کسی درد دل سے مل کے شدت سے رونے کو جی چاہتا ہے اس ناکام خواہش کے ساتھ کہ اندر کی زمیں کو شاید کچھ نمی مل جائے،کسے فرار ممکن ہے کہ جانے والوں کا سوگ زباں پر تادیر نہیں رہتا بہت سے لمحے ہمارے ساتھ ہمیشہ جڑے رہتے ہیں جب ان کی یاد کی شدت توڑ دیتی ہے دل کی زمیں نم رہتی ہے،اک بڑا ستم یہ ہوا ہے کہ انسان کو وقت کے دائروں میں قید کردیا گیا ہے اور دوسری جانب روح کسی قید کو قبول نہیں کرتی،فطرت انسان کو یہ نوید سناتی  ہے کہ وہ آزاد پیدا ہوا ہے اپنی مرضی کا مختار کل ہے لیکن کبھی جو وجود پر گری برف ہر احساس شل کر جائے اور سینے کے سناٹے میں صرف دل کی دھڑکن دھڑ دھڑاتی دکھائی دے تو ایسے میں احساس ہوتا ہے کہ ہم آزاد نہیں یہ محض ہمیں بہلایا گیا ہے ہمارا شمار زندوں میں نہیں اپنی مرضی سے ہم جی نہیں رہے لیکن لکھنے والا ان لمحوں کو بھی زندگی میں شمار کرتا جاتا ہے ہماری حیات کی ڈوری کے دانے اندھے کنویں میں پھینکتا جاتا ہے اتنی رعایت نہیں دیتا کہ یہ وقت جو ہم پہ بھاری ہے ہم سے ناراض ہے اسے ہماری زندگی سے منہا کردے اس نے جو وقت روز اول سے ہمارے جینے کا مقرر کردیا ہے بس وہی اٹل ہے اور ہم اس عذاب میں مبتلاہیں کہ سرپٹ بھاگتے وقت کو کیسے تھاما جائے؟کیسے رام کیا جائے؟بزرگوں سے سنا ہے جن کی عمر کے تجربات کا خلاصہ ان کی باتوں میں ہوتا ہے ان کا کہنا ہے کہ کسی چاردیواری،کسی بھی گھر میں ساری رونقیں اور برکتیں کسی ایک انسان کے د م سے ہوتی ہیں جب وہ چلا جائے تو ساری رونقیں اور برکتیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے 
آسمانوں سے سب کچھ دیکھنے والی ذات اُن پر رنگ،روشنیاں،مسرتیں،شادمانیاں،رحمتیں بے پایاں نازل فرمائے مجھ جیسے ننگ ِ اسلاف کی دسترس میں جتنے الفاط تھے سپردِ قلم کئے

بشکریہ اردو کالمز