246

بات کرنی مجھے مشکل ......

اردو کے صاحب طرز مزاحیہ شاعر اکبر الہ آبادی کا مشہور شعر ہے:

بوٹ داسن نے بنایا میں نے اک مضمون لکھا

ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

کرشن چندر کا افسانہ ’’جوتا‘‘ تو اردو ادب میں ایک  عظیم استعارہ ہے۔ طبقاتی کشمکش، اخلاقی گراوٹ اور ہند و پاک کے زوال پذیر سماجی ماحول کی بتدریج سیاسی پستیوں پر نظر ڈالیے تو آپ کو وہ جوتا مشرق وسطی میں بھی نظر آئے گا، جب عراق کے ایک سر پھرے صحافی نے بھری پریس کانفرنس میں سابق صدر جارج بش پر اچھال دیا تھا۔

پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر برائے پانی وبجلی فیصل واوڈا کو جلدی سے یادکرلینا چاہیے کہ بش کا فوری رد عمل اور جواب یہ تھا ’’دوستو! جوتے سے بچنے کی میری ہنرمندی کیسی رہی؟‘‘ پھر اس کے بعد جوتا چلنے اورچہرے پرکالک کا سپرے کرنے کے دیگر واقعات ہوئے اور نوبت سیاسی مخالفین کوگولی مارنے تک جا پہنچی۔ کہتے ہیں کہ جس گھر میں زبان اور جوتا ساتھ چلتے ہوں، اس میں کسی شخص کی عزت نفس محفوظ نہیں ہوتی۔ نہ معلوم کس وقت زبان بگڑے یا کہیں سے جوتاآئے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ ایک شدید نفسیاتی، اضطراری اور بیمار ذہن کی کارکردگی ہے جسے ٹیلیوژن کے بعض پروگرامز نے مستحکم کیا، بعض ٹی وی شوز ایک ذہنی رویے کے عکاس ہیں ، گھریلو زندگی، سیاسی نظام ، روزمرہ کی کاروباری اخلاقیات، تمدنی تعلقات ، انسانی رشتے اور اربن کلچر کی گلیمرائزڈ سج دھج سب پھلوں کے خوشنما چھلکے ہیں، اندر کی دنیا اور ذہن بیمار اور اضافی relative شے لگتے ہیں۔

بالادست پارلیمان کی حرمت سوالیہ نشان ہے، سڑک پر ایک بس کنڈکٹر بوڑھی عورت کو پانچ کا سکہ نہ دینے پر بس سے نیچے اتاردیتا ہے اورکوئی کنڈکٹرکو جوتا نہیں مارتا، اس لیے کہ ٹرانسپورٹ مافیا کے قبضے میں ہمارا پورا ٹریفک سسٹم ہے۔ تہذیب، بد تہذیبی، اخلاق ، بد اخلاقی، علم ، جہالت اور غربت ، امیری ، جرائم ، قانون شکنی کے تمام منظر نامے رات دن ٹی وی پرلائیو چلتے ہیں، اتنی فرصت کسے ہے کہ المیوں پر آنسو بہائے، کسی کچرا چننے والے افغان بچے کی لاش اس کی ماں تک پہنچائے۔ غیر انسانی سیاسی ، سماجی اور معاشی رویے ایسے ہی پروان نہیں چڑھتے، سیاست اور سماج میں نفرتوں، بد تہذیبی اور غیر انسانی طرز عمل کے بیج طرز حکمرانی کے مقتدر مالی ہی بوتے ہیں اور نئی نسل کو اس کی زہر آلود فصل کاٹنا پڑتی ہے۔

آج سے چالیس سال قبل کراچی میں غربت تھی، جرائم پیشہ لوگ بھی تھے، مگر پڑوسی کے گھر کود کر چوری کرنے کی پستی نہیں تھی، خواتین کے پرس چھین کر ان گلے سے نیکلس ، ہاتھوں کی چوڑیاںِ اور بندے نہیں لوٹے جاتے تھے، منچلے آج بھی ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماضی کا چور بھی کچھ اخلاقیات رکھتا تھا، بات وقت، تبدیلی ، ٹیکنالوجی، سائنسی ترقی اور ایجادات کی ہے، معیشت کی صحت مند پیش رفت روشن خیالی نہ لائے تو معاشرے صارف کلچر کا سارا بوجھ متوسط طبقے کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں، ایک طرف غربت بڑھتی ہے، دوسری طرف کروڑوں مالیت کے بنگلے اور محلات تعمیر ہوتے ہیں اور کچن کو تالا لگانے کی بیزاری ٹی وی پر سنائی دیتی ہے۔ اسی ٹیلیویژن کو میڈیا کے فلسفی مارشل میکلوہن نے ’’ڈرپوک دیو‘‘ کہا ہے۔

آج گفتگو ٹی وی کے اسی ’’جن‘‘ پر ہوگی ۔ مارشل میکلوہن ٹی وی میڈیم کا تقابل دوسرے ذرایع ابلاغ پرنٹ ، موویز سمیت اسپورٹس ، بیس بال، آٹو موبیلز اور میڈیکل انڈسٹری سے کرتا ہے، وہ ٹی وی دیکھنے والی نوجوان نسل، لوگوں کے ملبوسات، ان کی نمائش ، سیاسی زندگی اور تعلیم سے آنے والی روشنی اور شعور کی بات کرتا ہے، میکلوہن نے ٹی وی کو سرد میڈیم سے تعبیر کیا، وہ لکھتا ہے کہ ٹی وی میڈیم میں ناظرین کی غیر معمولی شراکت ہوتی ہے یہ میڈیم گرم ایشوز سے نمٹنے میں ناکام ثابت ہوگا ، لیکن ناقدین نے میکلوہن کے معاصرانہ تجربات اور خیالات کو مسترد کیا ہے، وہ میکلوہن کے عشرے قبل کے افکار اور انداز نظرکو دورحاضرکے تقاضوں سے ہم آہنگ قرارنہیں دیتے، ان کے لیے میکلوہن کی اس بات سے بھی اتفاق ممکن نہیں کہ ٹی وی بیک گراؤنڈ کے طور پر کام نہیں کرے گا۔

صرف آپ کو مصروف رکھے گا۔ لیکن خود میکلوہن فرماچکے ہیں کہ ٹی وی میں مضمر خرابی یہ ہے کہ آپ میں عدم دلچسپی لاتا اور فکری طور پر بہرا اور بے حس بنا دیتا ہے، یہ وہی تھیوری ہے جو اقبال کے ہاں ’’احساس مروت کوکچل دیتے ہیں آلات‘‘ کے تصور سے ملاتی ہے، میکلوہن کے مطابق ٹی وی لو ڈیفینیشن میڈیم ہے، کم تر تفصیلات مہیا کرتا اور بیشتر درد سر ناظرین پر چھوڑدیتا کہ وہ خود ہی نتائج اخذ کریں۔ تاہم میلوہن کے نظریات پر شایع شدہ ایک کتاب میں الٹی کہانی بیان کی گئی ہے، وہاں مصنف کے نزدیک ٹیلیویژن سرد میڈم اور فلم ہاٹ میڈیم ہے۔ ابلاغ کی اس لڑائی میں کچھ نقادوں کا کہنا ہے کہ ٹی وی آنکھوں کی چیونگم ہے۔

کسی نے خوب کہا کہ ٹیلیویژن وہ میڈیم ہے جس میں بہتر انداز سے کہی ہوئی چیز شاید ہی پیش کی جاتی ہے، اسے سنجیدہ ناقدین مکمل ذمے داری قرار دیتے ہیں جب کہ مشہور مقولہ ہے کہ ٹیلیویژن کی ایجاد یوں ممکن ہوئی کہ روس امریکی نظام تعلیم کو برباد  کر دے۔ اس ایجاد کے پیچھے جو سائنسی کوششیں تھیں اس کا میر کارواں انسانی تجسس تھا۔ ٹی وی فلم کی توسیع بنا۔ جنھوں نے ٹیلیویژن ایجاد کیا ان کا کہنا تھا کہ میرا ذہن میرا ہتھیار ہے۔ بالاخر ایک نکتہ نظر ان نقادوں اور تجزیہ کاروں کا سامنے آیا کہ دنیا کچھ بھی کر لے موجودہ وقت پاپارزیوں paparazzies کا ہے۔یہ میڈیا کی وہ عکسی مخلوق ہے جس نے نیوز فوٹوگرافرز کے انبوہ کی صورت  میں لیڈی ڈائنا کی کارکا دیوانہ وار تعاقب کیا یہاں تک کہ وہ موت کے منہ میں چلی گئی۔

اسرائیل کے بانی رہنما شمعون پیریز نے کہا تھا کہ دنیا میں نا امیدی پر مبنی کوئی صورتحال نہیں ہوتی، نا امید صرف لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی ٹاک میں جو صورتحال پیدا ہوئی اس سے نا امیدی کے گہرے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ لیکن معاملہ سیاسی رواداری، طرز عمل ، پارلیمانی گفتگو اور آداب تکلم سے زبان کی آگاہی کا ہے، یہ اجتماعی ذمے داری ہے، ٹی وی ٹاک ایک سنجیدہ سیاسی، سماجی، معاشی اور فکری مکالمہ ہوتا ہے، جو گفتگو میں شریک سیاست دان ہوتے ہیں ، وہ قوم وملک کے لیے رول ماڈل کا مقام رکھتے ہیں، ٹی وی کے اثرات جس میں کسی ملک کی سیاسی تہذیب کا حسن وجمال جھلکتا ہے، ہم صدر ٹرمپ کے کے خلاف مواخذہ کی کارروائی ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔

ٹرمپ کا اپنا اسٹائل ہے، لیکن ڈیموکریٹس کے معروضی دلائل، ان کے arguments  کے افقی اور عمودی زاویے اور ٹرمپ کے حوالے سے ان کے ممکنہ فرد جرم کا انداز بیاں ملاحظہ کریں، کیا وہاں کے سیاسی ، عدالتی فورمزکا معیار ہمارے لیے قابل تقلید نہیں ہوسکتا۔ ہمارے سینئر اینکرز نے بعد میں بلائے گئے ٹی وی ٹاکس میں صائب رائے دی کہ دشنام ترازی کے سلسلے کو اب ہر سطح پر ختم ہونا چاہیے، اس کا کوئی چین ری ایکشن نہیں ہونا چاہیے۔ ضرورت سیاسی تدبر، فہمیدہ سیاسی تجزیے اور فہم وفراست پر مبنی بحث مباحثے کی ہے۔ ٹی وی دیکھنے والوں میں لاکھوں بچے شامل ہوتے ہیں، نوجوانوں ، اسکول،کالج اور جامعات کے طالب علموں جن کو ہم مستقبل کے معمار کہتے ہیں   ہمارے ٹی وی ٹاکس شعور اور ضمیر سے آشنا کریں۔ انھیں ہمارے اینکرز آہ سحر دیں۔ ہماے سیاسی کلچر میں روشن خیالی، خرد افروزی اور شائستگی کی نئی روح پھونکی جاسکتی ہے؟ ہمارے کنٹرولر نیوز ، ایڈٖیٹرز، نیوز ایڈٖیٹرز اور نیوز ریڈرز اردو زبان کی صحت، املا اور تلفظ پر توجہ فرمائیں ۔ امید کی جانی چاہیے کہ ہم داغؔؔ دہلوی کی روح کو شرمندہ کرنے سے بچائیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم پر آیندہ یہ الزام بھی آئے کہ

زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا

بشکریہ ایکسپرس