معلوم نہیں کیوں لیکن یہ پیار، عشق اور محبت کی کہانیاں بہت مشہور ہو جاتی ہیں اور لوگ ان کو مزے لے لے کر سنتے بھی ہیں اور سناتے بھی۔۔ اگر ان سب قصوں کو بغور پڑھیں تو پتا چلے گا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔۔ مثلاً اگر سوہنی مہینوال کی محبت کی کہانی دیکھئے تو پتا چلتا ہے کہ جس نے بھی یہ کہانی گھڑی ہے انتہائی سستی فلمیں دیکھتا رہا ہو گا۔۔ یہ کوئی بات ہے کہ سوہنی ملنے کے لیے آئے تو اسے اپنی ران کے گوشت کا کباب بنا کر کھلایا۔۔ کچھ لوگوں کو یہ مذاق لگے لیکن کہانی میں یہی لکھا ہے کہ سوہنی اپنے محبوب سے ملنے کے لیے اس کے گھر آئی، اور مہینوال کے حالات جانتے ہوئے بھی اس سے کبابوں کی فرمائش کی چونکہ اس کے پاس کچھ کھلانے کو نہیں تھا تو اس نے یہ بات چھپانے کے لیے اپنی ہی ران کا گوشت کاٹا اور اس کے کباب بنا دیئے اور سوہنی نے بھی بہت چسکے لے کر وہ کباب کھائے، آگ لگے ایسی محبت کو۔۔ جو اپنی محبوبہ کو آدم خور بنا دے۔۔ بتائیے اگر ان کی شادی ہو جاتی اور شادی کے بعد بھی مہینوال کے حالات یہی رہتے تو مہینوال کی ران کا گوشت تو چند دن بھی نہیں چلنا تھا۔۔ پھر کیا ہوتا؟۔۔ وہ سوہنی کیا اپنے بچے ہی کھا جاتی؟۔۔ کیسی کیسی کہانیاں گھڑ دی جاتی ہیں، اگر کوئی اپنی ران کا گوشت باالفرض محال کاٹ بھی لے تو خون کیسے بند ہو گا؟ یا مہینوال کوئی اعلیٰ نسل کا سرجن تھا جس نے چیرا لگایا، گوشت نکالا اور پھر ٹانکے لگا کر کامیاب آپریشن بھی کیا، نہ انیستھیزیا دیا گیا، نہ ہی سپرٹ سے جسم سن کیا گیا، نہ ہی پائیو ڈین لگا کر زخم صاف ہوا، اصلی پری کا دھاگہ بھی ٹانکوں میں استعمال نہیں ہوا اور پھر سوہنی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوا کہ کم بخت عاشق نے اس کے ساتھ بھی اور اپنے ساتھ بھی کیسا ظلم کیا ہے۔۔ اپنی ران زخمی کر لی اور اسے آدم خور درندہ بنا دیا۔ ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گھر میں نمک موجود نہ ہو تو مہینوال اپنا پسینہ ڈال کر نمک پورا کرتا رہا ہو لیکن مصنف نے یہ نہیں لکھا۔ اب خود سوچیں ، پہلے تو یہ کہ مہینوال نے اپنے مالی حالات سوہنی سے کیوں چھپائے؟۔ اس نے جھوٹ بولا ہو گاکہ وہ بہت امیر ہے اور اسے روز چھوٹا گوشت کریلے یا گوبھی کے ساتھ پکا کر کھلایا کرے گا۔ ورنہ کسی کنگلے کی خاطر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سوہنی اپنی شادی شدہ زندگی خراب کر لیتی؟۔ ویسے بھی یہ کہانی اخلاقی اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہے ، یہ اگر اس دور میں ہوتی تو پیمرا اس کا نوٹس لے چکا ہوتا کہ بے حیائی کا پرچار کیسے کیا جا رہا ہے؟۔ چینل کو جرمانہ بھی ہو سکتا تھا۔ اللہ توبہ اللہ توبہ۔۔ ایک شادی شدہ خاتون کی کہانی لوگ کس طرح مزے لے لے کر سنتے ہیں افسوس کی بات ہے۔ ویسے بھی مہینوال بے چارہ کہتے ہیں عشق کا روگ لگنے سے پہلے بہت امیر انسان تھا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عشق اچھی چیز نہیں کہ عزت بیگ بے چارہ بخارہ سے گجرات کاروبار کے سلسلے میں آیا اور پھر محبت کا روگ لگا کر کنگلا ہو گیا اور نام بھی دیکھیں کہ اس میں سے عزت بھی نکل گئی اور بیگ بھی ۔۔اور وہ صرف مہینوال رہ گیا۔ مجھے تو لگتا ہے سوہنی کو چناب پار کرنے کے لیے کچے گھڑے میں سوراخ بھی مہینوال نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے کیا ہو گا، اگر ہوتے ناں اس وقت چیئرمین نیب جاوید اقبال صاحب تو فوری سر تاپا نوٹس لیتے۔
اب دیکھتے ہیںلیلیٰ مجنوں کی محبت۔۔ بے سر و پا سی باتیں۔۔ یعنی چھڑی مجنوں کو ماری جاتی تو زخم لیلیٰ کے ہاتھوں پر کیسے آ جاتے تھے؟۔ چلو زخم بھی آ جاتے ہوں لیکن آپ خود ہی انصاف کیجئے اور بتائیے کہ ایسا شخص جو اپنا ہوش بھی کھو بیٹھے، نہاتا دھوتا بھی نہ ہو اور جسم پر کپڑے بھی لیروں کی صورت میں ہوں، اس سے کیسے کسی لڑکی کو پیار ہو سکتا ہے۔ اور چلیں لڑکی اور لڑکے کو یہ موا عشق ہو بھی جائے کہتے ہیںمجنوں کو لیلیٰ کی گلی کے کتے سے بھی پیار تھا۔۔ لاحول ولا قوة۔۔ کتے سے پیار تھا لیکن بعض جگہ روایت ہے کہ مجنوں نے لیلیٰ کے بھائی کو قتل کر دیا تھا۔ اب بھلا اپنے بھائی کے قاتل کے ساتھ کیسے لڑکی کو پیار ہو سکتا ہے؟۔ کچھ سمجھ نہیں آتیں یہ باتیں۔۔ آج کل کی ماڈرن لڑکیاں جو مزے سے لیلیٰ مجنوں کی داستانوں کا ذکر کرتی ہیں کیا یہ لڑکیاں کسی ایسے ہی حلیہ کے شخص سے شادی کرنے کا تصور کر سکتی ہیں؟۔ ویسے ایک اور بات جو سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ ہے کہ دونوں کردار عرب کے تھے۔ لیلیٰ اور قیس۔۔ پھر ان کی قبریں بھارت کے شہر انوپ گڑھ میں کیسے پہنچیں؟۔ ایک اور چیز جو اس کہانی سے سمجھ آتی ہے کہ مہینوال کی طرح قیس بھی تباہ و برباد ہی ہوا۔۔ ان موصوف کو قیس کے نام سے لوگ کم جانتے ہیں اور مجنوں کہہ کہہ کر ہر اس شخص کو پکارا جاتا ہے جس کا حلیہ خراب دکھائی دیتا ہو یا وہ دیوانہ ہو۔ جیسے وہ شعر ہے کہ:
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
اب کوئی دیوانہ ہی ہو سکتا ہے جو صرف اس وجہ سے صحرا میں جانے کے لیے تیار ہو گیا ہے کہ کسی دیوانے کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ بھائی اپنے گھر جا کر آرام سے بیٹھو، نبیل کا بلبلے ڈرامہ دیکھو یا پھر فہد مصطفی کا جیتو پاکستان دیکھو اور واقعی ہی دیوانے ہو چکے ہو تو پھر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا ناگن ڈانس بھی دیکھا جا سکتا ہے۔۔ بہت زیادہ طبیعت خراب ہو جائے تو ساحر لودھی کا شو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔۔ الحمد للہ ساحر اور عامر لیاقت کا یہ کمال ہے کہ چنگے بھلے لوگوں کو بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں اور جو دیوانے ان کی رمضان ٹرانسمیشن دیکھ لیں وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ہوش میں آ جاتے ہیں۔
اب ذرا چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ ہیر رانجھا کی کہانی کا کیا چکر ہے؟۔ یہ بالکل رنگ روڈ کے گول چکر کی طرح کا چکر ہے جس سے چنگے بھلوں کو چکر آ جائیں۔ پھر بھی یہ پتا نہیں چلتا کہ چکر کس نے چلایا؟۔ بس کیدو چاچا ہی مفت میں بدنام ہوا حالانکہ وہ آج کے دور میں ہوتا تو سپیشل پرسن کے طور پر اس کی بہت عزت ہوتی لیکن پرانا دور تھا، جہالت کی باتیں تھیں جہاں اسے کیدو لنگڑا پکارا جاتا تھا۔ رانجھا تخت ہزارہ سرگودہا سے تھا اور ہیر کا تعلق جھنگ سے تھا۔ رانجھے کو ملازمت ملی بھی تو ہیر کے باپ چوچک کی بھینسوں کو چرانے کی۔ اب بھلا کوئی بات ہے کہ چوچک کی بھینسیں بھی اور ہیر بھی رانجھے کی ونجلی یعنی بانسری سن کر مست ہو رہتیں۔ جب کیدو چاچا نے اس عشق کا سراغ لگایا تو اس نے چوچک کو بتایا۔۔ چوچک نے رانجھا کو ملازمت سے نکال باہر کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہیر بھی اور بھینسیں بھی ونجلی نہ سن سکنے پر پریشان رہنے لگیں، دونوں کی طبیعت ایک ہی جیسی تھی۔ یعنی ہیر بھی ضرور بھینس جیسی ہو گی جو بھینسوں کو خوش کرنے والی ونجلی اسے بھی بے قرار کر دیتی تھی۔ پھر یہاں بھی وہی بد کاری ۔۔ یعنی ہیر کے باپ نے اس کی شادی سیدو سے کر دی لیکن ہیر پھر بھی اپنے شوہر سے بے ایمان ہو کر رانجھے سے ملتی تھی اور اس سے بھی بڑی بے حیائی یہ کہ ہیر کا ساتھ کون دیتا ہے، اس کا ہم راز کون بنتا ہے؟۔ جی ہاں، ہیر کی نند۔۔ سہتی۔۔ یعنی سہتی اپنے بھائی کو بھابھی کے کردار کے حوالہ سے آگاہ کرنے کے بجائے اس کی مدد کرتی رہی۔۔ شاید اس وقت تک جنرل ضیا صاحب کا حدود آرڈیننس نافذ نہیں ہوا تھا ورنہ لگ پتا جاتا ان بد کردار عورتوں کو۔۔ کہ کیسے اپنے ماں باپ کے سر میں راکھ ڈالتیں۔ ایک دوست کہتا ہے کہ آج اگر ہیر اور سہتی زندہ ہوتیں تو ضروروہ۔ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگاتیں۔۔اس کے بعد مورخ لکھتا ہے کہ ہیر نے اپنی نند کی مدد سے رانجھا کے ساتھ بھاگنے کا منصوبہ بنایا اور منصوبہ کامیاب بھی ہو گیا لیکن راستے میں رانجھا اور ہیر دونوں مارے گئے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رانجھا جنگلوں میں سیالوں کے ہاتھوں مارا گیا اور ہیر واپس اپنے محل پہنچ کر مری تھی لیکن مر دونوں گئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت کا انجام ہے ہی موت، بھیانک موت۔ کہتے ہیں ہیر کا مزار آج بھی جھنگ میں قائم دائم ہے اور وہاں عشاق آ کر منتیں مانتے ہیں۔ اب بھلا بتائیے جو خود اپنی محبت نہ پا سکی ہو اس سے لوگ محبت مانگ رہے ہیں۔ اللہ ہی پوچھے گا ایسے بے ہدایتوں کو۔
شیریں فرہاد کے لیے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ وہ سراسر بے وقوفی تھی، اگر اسی طرح پہاڑ کھودنا ہی مقصود تھا تو بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض سے رابطہ کرتے، وہ بلا وجہ پہاڑیاں توڑنے پر مشینوں سے کام لیتے ہیں اور کئی کروڑ لگا دیتے ہیں، اگر بحریہ ٹاﺅن کے لیے کام کرتا تو مالا مال ہو سکتا تھا فرہاد۔۔ اور پھر چنگا بھلا بزنس بھی ملتا کہ صرف ملک ریاض ہی نہیں، حبیب رفیق وغیرہ بھی تھے اور اگر ان سے بھی کام نہ چلتا تو اپنے زلفی بخاری یا غلام سرور صاحب یا عبد العلیم خان ہی ایسا کوئی کام دے دیتے۔۔ ورنہ فرہاد خود بھی ریکوڈک منصوبہ کا ٹھیکہ لے سکتا تھا۔ اور اگر یہ بھی نہیں تو پھر او جی ڈی سی ایل سے ڈرلنگ کا ٹھیکہ لیتا اور ارب پتی ہو جاتا فرہاد۔۔۔ لیکن وہی محبت ہے جس نے برباد کر دیا کہ پہاڑ ویسے ہی کھود کے رکھ دیا اور ٹکے کی آمدن نہیں ہو سکی۔ بے چارے فرہاد کی۔
اسی لیے میرے بڑے بھائی افتخار خان نے غزل ہی لکھ ماری ہے ، کہتے ہیں:
سراسر ایک دھوکہ ہے محبت کچھ نہیں ہوتی
محبت کر کے دیکھا ہے محبت کچھ نہیں ہوتی
پوری غزل کہہ لینے کے بعد۔۔ پھر مقطع میں میرے بھائی نے بھی ڈنڈی مار دی۔۔ شاید کسی کے ڈر سے اور لکھ دیا:
نصیبوں میں تمہارے ٹھیک ہے یوسف نہیں لکھی
مگر یہ کون کہتا ہے محبت کچھ نہیں ہوتی
915