میں کافی مدت کے بعد راولپنڈی پریس کلب پہنچا جہاں کافی سارے دوست اکٹھے ہوئے تھے۔ سب کو ارطغرل کے انداز میں سینے پر ہاتھ رکھ کر دور دور سے سلام کیا، کئی لوگ زیر لب مسکرائے، جن کو خواہش تھی معانقہ کی، میں نے کہنی آگے کر دی اور انہوں نے بھی ہنستے ہوئے اپنی کہنی سے کہنی کو ملایا۔۔ لیکن کیا کیا جائے ایسے بے تکلف دوستوں کا ۔۔ جن کو یہ احتیاط ایک آنکھ نہیں بھاتی۔۔ میں نے انہیں آگے بڑھتے دیکھ کر اپنی کہنی آگے کی تو ایک بے تکلفانہ گالی دیتے ہوئے کہا میرے ساتھ یہ نہیں چلے گا۔ اب مجھے چند قدم پیچھے ہونا پڑا لیکن مجال ہے کہ وہ پیچھے ہوا ہو۔۔ میں صرف عابد عابد کہتا رہ گیا اور اس نے مجھے جپھی ڈالتے ہوئے کہا کچھ نہیں ہوتا۔ عابد منہاس بہت پرانا بلکہ پھٹا پرانا دوست ہو چکا ہے۔ اس نے جب اچھی طرح گلے ، پیٹ، کمر، گردن ملتے ہوئے کچھ نہیں ہوتا کی تکرار جاری رکھی تو میرے وہ دوست قہقہے مارنے لگے جن کو میں کہنی ملاتا رہا تھا، جیسے کہہ رہے ہوں اب کرو احتیاط۔ خیر عابد منہاس تو بس ایک مثال کے طور پر سامنے آ گیا ہے۔ یہاں پورے معاشرہ ہی اس فارمولہ کچھ نہیں ہوتا پہ چل رہا ہے۔
میں بہت احتیاط کے ساتھ گھر سے باہر نکلتا ہوں اور وہ بھی صرف ضرورت کے تحت۔۔ بیگم نے بتایا آئل ختم ہو گیا تو مجھے کیش اینڈ کیری تو جانا ہی پڑے گا۔ میں نے جلدی جلدی ماسک اٹھایا، سینیٹائزر کی چھوٹی بوتل جیب میں ڈالی اور گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈس انفیکٹینٹ سپرے کیا۔۔ کیش اینڈ کیری سے خاصی دور گلی میں گاڑی کھڑی کی کیونکہ وہاں رش نہیں ہوتا۔ بھاگتا ہوا کیش اینڈ کیری میں داخل ہوا، سیدھا آئل سیکشن میں گیا، آئل کا ڈبہ اٹھایا اور بھاگتا ہوا کاﺅنٹر پہ پہنچا، میں نے شکر ادا کیا کہ کاﺅنٹر خالی تھا، اپنا ڈبہ رکھا، ابھی وہ بل بنا ہی رہا تھا کہ ایک انکل بہت جلدی سے آئے، انہیں احساس ہی نہیں تھا کہ وہ جہاں جاتے ہیں ان کا پیٹ ان سے پہلے ہی پہنچ جاتا ہے، جب ان کا پیٹ اچھی طرح کمر میں پیوست ہو چکا اور ان کا دایاں پاﺅں میرے بائیں پاﺅں پہ چڑھ گیاتو میں نے انہیں گھور کے دیکھا اور کہا کہ کورونا کے دور میں احتیاط کیا کریں اور دوری رکھیں۔۔ پیچھے ہو کر کھڑے ہوں۔ سماجی فاصلہ کا خیال رکھیں، انہوں نے بہت اطمینان سے کہا کچھ نہیں ہوتا۔۔ مجھے غصہ آ گیا۔۔ کیوں کچھ نہیں ہوتا؟۔ روزانہ اتنے لوگ مر رہے ہیں پھر بھی آپ کو لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہوتا؟۔ کمال لوگ ہیں۔ انہوں نے کمال اطمینان سے اپنے منہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا میں نے ماسک لگایا ہوا ہے۔ ماسک کو غور سے دیکھا تو میرا غصہ تو کافور ہو گیا اور مجھے بے اختیار انکل کی معصومیت پر ہنسی آ گئی۔ میں نے منہ پھیر لیا کیونکہ انہوں نے جو ماسک لگایا تھا وہ ناک سے نیچے اور ہونٹوں سے اوپر تھا یعنی پوری احتیاط کے ساتھ انہوں نے کوشش کی تھی کہ ماسک ان کے منہ اور ناک کو ڈھک نہ پائے۔ اور پھر یہ جملہ ۔۔ کچھ نہیں ہوتا۔
دنیا بھر میں قبرستان اور ہندوﺅں کے شمشان گھاٹ بھر چکے ہیں پھر بھی یہ لوگ ماسک لگانے کو تیار نہیں اور اگر لگاتے بھی ہیں تو ٹھیک اس طرح جیسے ہمارے یہاں اکثریت موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہنتی ہے۔ اکثریت ایسے موٹر سائیکلسٹس کی ہے جو ہیلمٹ صرف پولیس کو دکھانے کے لیے پہنتے ہیں، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ پولیس والے کہاں کھڑے ہوں گے۔ جیسے ہی وہ جگہ قریب آتی ہے وہاں یہ ہیلمٹ گھٹنے سے اتار کر سر پہ رکھ لیتے ہیں۔ ایسے جیسے اس ہیلمٹ سے حفاظت پولیس والے کی ہونی ہو۔ کسی سے پوچھیں ہیلمٹ کیوں نہیں پہنتے تو کہتا ہے یار بال خراب ہو جاتے ہیں۔۔ اگر آپ انہیں ہیلمٹ کی افادیت سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ کہے گا: کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ کوئی ون وے پر غلط سمت پہ گاڑی چلا رہا ہو تو بھی اتنے ہی اعتماد سے چلاتا ہے جیسے وہ درست ہو اور باقی غلط۔ آپ کو بریک لگانی پڑ جائے تو لگائیں ،انہیں کیا؟۔۔۔ آپ انہیں کہہ دیں کہ آپ غلط سمت سے آ رہے ہیں۔۔ بڑے اطمینان سے کہتے ہیں کچھ نہیں ہوتا، تمہاری گاڑی نکل جائے گی۔ اگرآپ جواباً یہ کہہ دیں کہ یہ قانوناً جرم ہے۔۔ تو جواب ملے گا، توں پلس اچ بھرتی ہویا ایں؟۔(تم پولیس میں بھرتی ہوئے ہو؟)۔ مطلب اس کا بھی یہی ہے کہ کچھ نہیں ہوتا، چل نکل۔ آپ بینک میں یا کسی بھی دفتر میں قطار میں ٹوکن لے کر کھڑے ہوں، اچانک کوئی شخص بے تکلفی سے سیدھا خالی ہونے والے کاﺅنٹر پہ جا پہنچے گا۔۔ آپ کچھ کہیں گے تو وہ مزے سے بولے گا، کچھ نہیں ہوتا، بس دو منٹ کا کام ہے۔آپ کسی دکان میں جاتے ہوئے گاڑی باہر پارک کر کے جائیں واپس آئیں تو کوئی آپ کے پیچھے گاڑی کھڑی کر گیا۔۔ آپ ہارن بجائیں۔۔ کچھ دیر بعد کسی سامنے کی دکان سے بندہ جھلا کے منہ باہر نکال کر کہے بس دو منٹ، آپ لاکھ بتائیں کہ آپ کو دیر ہو رہی ہے مجال ہے کہ وہ اپنی ایک کلو دہی بعد میں لے لے اور گاڑی آگے پیچھے کر دے، چاہے دکان میں اس سے پہلے مزید چار پانچ گاہک ہوں اور اسے پانچ سات منٹ اندر ہی انتظار کرنا پڑے۔۔ باہر وہ تب ہی آئے گا جب دہی وصول پائے گا۔ باہر آنے پر اگر آپ نے اسے کہہ دیا کہ یار گاڑی سائیڈ پر لگا لیتے مجھے دیر ہو گئی تو وہ گرج کر آپ کو بالکل ایسے کچھ نہیں ہوتا کہے گا جیسے اپنے انکل حسن نثار کسی نئے اینکر یا کسی نئی تجزیہ کار خاتون کو جھڑک کر کہتے ہیں جاہل آدمی۔ بولا پانچ منٹ انتظار کر لیا تو کوئی قیامت نہیں آ گئی۔ کچھ نہیں ہوتا، مجھے پارکنگ کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔
ہم ایسی قوم کو کورونا سے ڈرا رہے ہیں جنہیں کسی کی بیماری کا بھی یقین اسی وقت آتا ہے جب وہ مر جائے۔ ورنہ وہی بات کہ کچھ نہیں ہوتا۔ بھارت میں اموات بڑھ چکی ہیں لیکن ہم کہتے ہیں ہمیں کچھ نہیں ہوتا۔ بہت مستقل مزاج لوگ ہیں ہم۔۔ کپڑے کا تاجر کہتا ہے ہمارا تو سیزن آیا ہے۔۔ ہم کیوں کاروبار کا دورانیہ کم کریں۔۔ چاہے کورونا پھیلے۔۔ ہمارے کپڑے سے کورونا نہیں ہوتا، اس لیے کچھ نہیں ہوتا۔ سکول والے کہہ رہے ہیں کہ سکول کھولو ورنہ ہم برباد ہو جائیں گے۔ انہیں بتائیں کہ کورونا میں شدت آ رہی ہے۔ تو جواب ملتا ہے۔۔ سکول میں کورونا نہیں ہوتا جبکہ ہر ماہ ہر سکول میں ایک یا دو ٹیچرز یا سٹاف کو کورونا ہوتا ہے اور اس مرتبہ تو بچے بھی کورونا کا شکار ہو رہے ہیں۔۔ اس پر سکول والے جواب دیتے ہیں کچھ نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتیں احتجاجی مظاہرے کر رہی ہیں کیونکہ کچھ نہیں ہوتا،اور تو اور وزیر اعظم بھی سینیٹ کا الیکشن جیتنے کے لیے احتیاط نہیں کرتے کہ کچھ نہیںہوتا۔ ہمارے ایک جاننے والے ہیں جو پہلے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے سخت مخالف تھے، ان کا ماننا تھا کہ یہ سب انگریزوں کا ڈرامہ ہے ہمیں کمزور کرنے کے لیے۔ آج وہ فیصل رضا عابدی کی طرح کورونا کو بھی یہودیوں کی سازش قرار دیتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ اس ویکسین سے ہم سب کو مانیٹر کرنے لگیں گے، ہمارے اندر بار کوڈ لگا دیں گے۔ جیسے ہم سب کے اندر ایٹم بم بنانے کا نسخہ موجود ہو۔
ارشد وحید چوہدری، طارق محمود ملک، جوہر مجید، سہیل عبد الناصر سمیت اتنے سارے اچھے اچھے دوست اس کورونا کا شکار ہو گئے، کئی احباب کے والدین اور عزیز و اقارب ان سے بچھڑ گئے لیکن عابد منہاس آج بھی یہی کہتا ہے کچھ نہیں ہوتا۔
517