490

لاوارث کراچی 

کراچی پاکستان کا معاشی حب ، عروس البلاد ، میٹرو پولیٹن سٹی اور بہت سے ناموں سے جانا والا شہر ! آج کس حال میں ہے ؟                                                            

میں2010 میں کراچی گیا تھا مجھے اس وقت سب سے زیادہ تعجب یہ دیکھ کر ھوا کہ گراؤنڈز یا گلیوں میں نوجوان کرکٹ وغیرہکھیلتے نہیں دکھائ دئیے اور شہر کی تباہی کی یہ سب سے بڑی نشانی تھی   مجھے اس وقت بہت دُکھ ھوا تھا کیونکہ ہم اس ہیشہر کی گلیوں ، میدانوں میں کھیل کر بڑے ھوئے تھے اور اس وقت شہر کی سرگرمیاں عروج پر ھوا کرتی تھیں ! یہ شہر کرکٹ اورہاکی کی نرسری تھا یہاں کی گلیوں اور میدانوں نے دُنیا کے نامور کھلاڑی پیدا کئے ہیں ، فیڈرل بی ایریا ، ناظم آباد ، نیو کراچی ،ملیر اور لیاقت آباد میں درجنوں بڑے بڑے گراؤنڈز ھوا کرتے تھے جہاں دن بھر اور شام کو بالخصوص نوجوان کرکٹ اور ہاکی کھیلتےنظر آتے تھے شہر میں سکون ھوا کرتا تھا ، شامیں ٹھنڈی اور راتیں انتہائ خوبصورت ھوا کرتی تھیں ! 

کراچی نے صرف کھیل میں ھی بڑے نام پیدا نہیں کئے بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں بین الاقوامی سطح کے نام دئے ہیں ، کھیل کاخاص زکر اس لئے کیا ہے کہ کسی بھی ملک اور شہر کے نوجوان بہت اہمیت کے حامل ھوتے ہیں اور ان نوجوانوں میں سے اگر کھیلہی ختم ھوجائے تو سمجھیں سب کچھ ختم ! 

کراچی ہمیشہ سے غریب پرور شہر رہا ھے اور یہاں روزگار کی تلاش میں آنے والوں کے لئے اس شہر نے اپنی بانہیں پھیلائ ہیں ! ہنستا بستا راتوں کو جاگنے والا یہ شہر کیوں بہت تیزی سے زبوں حالی کی طرف گیا ؟ 

 اس خوبصورت شہر کو یتیم و یسیر کس نے کیا ؟ کیوں کیا ؟ اور کیسے اس کی حالت لا وراثوں والی ھوگئ ؟ 

اس شہر کی اس حالت کو دیکھنے کے لئے ہمیں اس کا پوسٹ مارٹم کرنا پڑے گا کیونکہ اس کے زخم بہت پرانے اور بہت گہرے ہیں ، 

ایوب خان کے دور میں الیکشن ھوئے تھے اور مادر ملّت محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مقابلے پر کراچی سے الیکش لڑرہی تھیں ،انہیں اس دور میں راء کا ایجنٹ قرار دیا گیا ، انکے نام کی تختی کتّوں کے گلے میں ڈالی گئ ، اور الیکشن کے بعد کراچی والوں سےاس بات کا بدلہ لیا گیا کہ انہوں نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا ، ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے دن دہاڑے اپنے حواریوں کے ہمراہکراچی کی کئ کچی بستیاں نظر آتش کردی تھیں ، 

اس سے پہلے اپنے دور اقتدار میں ایوب خان نے جو سب سے بڑا ظلم کراچی کے ساتھ جو کیا تھا وہ یہ تھا کہ کراچی کو ملک کےدارلخلافہ سے ہٹا کر اسلام آباد منتقل کردیا تھا ۔ یہ کراچی کا ساتھ پہلا سب سے بڑا ظلم تھا ، کراچی چونکہ ساحلی شہر ہے اوریہاں بندر گاہ بھی موجود ہے تو تجارتی سرگرمیاں یہاں ہمیشہ سے بہت زیادہ رہی ہیں ، یہاں ہمیشہ سے دوسرے صوبوں سے روزگارکی تلاش میں آنے والوں کا اژدہام ہے 

، بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی صنعتوں اور نجی اسکولوں کو قومیا لیا تھا تو اس وقت پورے ملک اور بالخصوص کراچی پر بہت بُرا اثرپڑا ، ترقی کا پہیہ یکدم رُک سا گیا تھا ۔ 

تعلیم پر بہت منفی اثر پڑا اور تعلیم کا معیار بہت گرگیا تھا اور اس کا اثر آج تک موجود ہے اسکے بعد بھٹو نے دس سال کے لئے سندھمیں کوٹہ سسٹم نافذ کردیا کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں پسماندگی زیادہ ہے اور انہیں آگے آنے کے مواقع فراہم نہیں کئے جاتے اسلئے یہاں جُز وقتی طور پر شہری اور دیہی کوٹہ سسٹم لاگو کردیا گیا جسے دس سال بعد مزید دس سال آگے بڑھا دیا گیا اور اب تکنافذ ہے تو وہ جُزوقتی سے ہٹ کر کُل وقتی ھوچکا ہے ، یہ سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ظُلم تو تھا ہی مگر اس کوٹہ سسٹم نےکراچی کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی، دوسری طرف کراچی کی آبادی دوسرے علاقوں سے ہجرت کرنے والوں کیوجہ سے مسلسل بڑھ رہی تھی مگر انتظامیہ کی طرف سے اس طرف کبھی توجہ نہیں دی گئ ، اگر شروع سے ہی پلاننگ کی جاتی توآج یہ وقت نہ آتا ۔ 

کراچی میں لوکل ریلوے کا مربوط نظام ھوا کرتا تھا ، سرکلر ریلوے چلا کرتی تھی ، مال گاڑیاں چلا کرتی تھیں نہ کہ یہ نظام ترقی کرتا، انجانی قوتوں نے اسے تباہ و برباد کر ڈالا ! کے ٹی سی کی بسیں ، یونیورسٹی اور میڈیکل کالجز کے پوائنس چلا کرتے تھے وہ ختمکردئے گئے ، سوا دو کروڑ کی آبادی والا شہر ریلوے سے ہی محروم ھوگیا ، 

اس شہر میں آبادی کے لحاظ سے کم از کم ستّر سے ایک سو یونیورسٹیز ھونی چاہئیں وہاں گنتی کی چند یونیورسٹیز ہیں ، اس شہرمیں سو سے زائد فائر ڈپارٹمنٹس ھونے چاہیں وہ بھی چند ایک ہی ہیں وہ بھی جدید سہولیات سے محروم ، آبادی کے لحاظ سے صفائاور صحت کا مربوط نظام ھونا چاہئے وہ بھی ندارد ، اسپتالوں کا بھی یہی حال ہے ، پولیس اسٹیشنز 

کا حال سب سے ابتر و بدتر ہے لوگ وہاں جانے سے ہی ڈرتے ہیں !

محّلوں میں محّلے داری بہت زیادہ تھی ایک دوسرے کا انتہائ خیال رکھا جاتا تھا ، خوشی اور غم میں برابر کے شریک ھوتے ھے ،چھوٹے بچے بڑوں سے ڈرتے تھے نوجوان محلے کے بزرگوں کی عزت و تکریم کرتے تھے ، پھر یہ سب کچھ اچانک کیسے ھوگیا کہ سبآناً فاناً ختم ھوگیا ؟ سب محبتیں کہاں چلی گئیں ؟ 

جب 1977 کے الیکشن ھوئے تو ایک مزہبی سیاسی جماعت نے وہاں سے کئ سیٹیں جیتیں اور ایسے ہی اس وقت کے بلدیاتی انتخاباتمیں بھی ھوا مگر یہ سب جیتنے والے جیتنے کے بعد ایسے غائب ھوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ! اسکے بعد ضیاالحق نےلسانیت کو ھوا دی اور ایک لسانی سیاسی پارٹی کی تشکیل دی یہیں سے کراچی کی اصل تباہی شروع ھوئ  

اس سے پہلے سر سید کالج کی ایک طالبہ بشریٰ زیدی بس کے ایک حادثے میں ہلاک ھوگئ تھی اور لسانیت کی ھوا وہیں سے چلنیشروع ھوگئ تھی, ایک طرف تو منتخب ھونے والے ارکان اسمبلی دوبارہ اپنے حلقے میں واپس نہیں آتے تھے دوسری طرف آہستہ آہستہلسانیت اور قومیتوں کو ھوا دی جارہی تھی دراصل فوجی حکومت سندھ کے شہری علاقوں سے پیپلز پارٹی کی قوت ختم کرنا چاہتیتھی چونکہ کراچی کثیرالقومی شہر تھا تو یہاں چنگاری نے فوراً آگ پکڑ لی اور اسکے ساتھ ہی قرب و جوار کے چھوٹے شہروں نےبھی ! 

کراچی میں تو جیسے لوگوں کو انتظار تھا اس بات کا کہ کوئ لسانیت کا نعرہ لگائے اور وہ سڑکوں پر نکل جائیں ، اور 1986 میں ایکلسانی جماعت نے جنم لیا اور بہت تیزی سے عوام میں مقبولیت کی سند لینے میں کامیاب ھوگئ مگر اس پارٹی کے ساتھ ھوا یہ کہاسے بہت جلد بہت زیادہ کامیابیاں نصیب ھوگئیں ! 

شہر ایک شخص کے سحر میں جکڑ چکا تھا گلی محلے ،اسکول کالجز ، یونیورسٹیز اور تمام ادارے اس کی جکڑ میں آگئے تھے ،بلدیاتی الیکشن اور اسکے بعد قومی و صوبائ الیکشنز میں اس جماعت نے بھاری اکثریت سے کامیابیاں حاصل کیں ، محلے اور علاقےیونٹس میں تبدیل ھوگئے آہستہ آہستہ تشدد کا عنصر بھی اس جماعت میں آنے لگا ، کراچی میں چونکہ پاکستان کی تمام قومیتوں اورزبان بولنے والے رہائش پزیر ہیں تو ان سے بھی جھگڑے شروع ھوگئے ، انتظامیہ خاموش تماشائ بنی رہتی تھے اب لوگوں میں خوفپایا جانے لگا تھا اس جماعت کی دیکھا دیکھی دوسری قومیتوں نے بھی سر اُٹھانا شروع کردیا اور انکے پیچھے بھی وہی قوتیں تھیںجو اولالزکر جماعت کے پیچھے تھیں ، آئے دن شہر میں دنگے فساد ھونا شروع ھوگئے کرفیو لگنا روز کا معمول بن گیا ، سڑکوں پر خونبہایا جانے لگا  ! منتخب شدہ نمائندے اپنے منشور سے ہٹ گئے تھے اور انہیں اپنی طاقت بڑھانے کا جنون چڑھ چُکا تھا اگلی تیندہائیوں میں دو پارٹیز کی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں اور وہ بھی اپنی حکومت بنانے کی لئے اس ہی جماعت کی چوکھٹ پر ماتھاٹیکتے رہے اور گیارہ سالا فوجی دور بھی آیا مگر اس سے پہلے کراچی میں لیاری گینگز سر اُٹھا چکے تھے جن کے پیچھے سندھ کیسب سے بڑی جماعت تھی اب کراچی میں دو متوازی قوتیں آمنے سامنے آچکی تھیں ، اس سے بہت پہلے ایجنسیوں نے کراچی کی بڑیسیاسی جماعت کو توڑ کر دو دھڑوں میں بانٹ دیا تھا ان میں بھی بہت زیادہ خون خرابی ھوا ، بھتہ خور اور ڈکیت سرگرم ھوگئے1994 سے کراچی میں ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اچانک اضافہ شروع ھوگیا اور لگتا تھا کہ ہر شخص ڈاکو ھے اور ہر شخص لُٹ بھیرہا ھے !

ہماری پولیس ، ایجنسیاں اور سیاسی قوتیں اس دفعہ بھی خاموش تماشائ کا کردار ادا کرتی نظر آئیں ۔ 

کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا جیسے ہر شخص کے اندر ایک بدمعاش چھُپا ھوا تھا بس اسے باہر آنے کا موقع نہیں مل رہا تھا جو ابمل گیا ہے ، چوہے بلّی کا کھیل زور و شور کے ساتھ جاری تھا اس کھیل میں گینگ وار ، ڈاکو ، بھتہ خور ، قاتل ، ٹارگٹ کلرز اور نہجانے کون کون شامل ھوگیا ، 

کراچی شہر جو سب کا وارث تھا آہستہ آہستہ سِسکتا سسکتا لاوارثیت کی جانب بڑھ رہا تھا ، اس شہر پر دو آپریشن بھی ھوئے اورایک ہنوز جاری ہے مگر کیا کہیے کہ وارداتوں میں کمی نہیں آئ ، شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ آپریشن کرنے والے اپنی توجہ صرف ایکجانب رکھے ھوئے تھے ۔ نائن الیون کے بعد دُنیا کا نقشہ بدلا تو کراچی کا بھی حُلیہ بدلا یہاں پر بھی دہشت گردی کی لاتعداد وارداتیںھوئیں مگر کراچی کو لاوارث اپنوں ہی نے بنایا ، مشرف کے بعد کی حکومتوں نے کراچی سے توجہ ہٹانی شروع کردی اور سندھ حکومتجسے پتہ تھا کہ وہ فی الوقت سندھ کی حد تک رہ گئ ہے اس نے کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک شروع کردیا  , ایک جانبلسانی جماعت خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھوئ اور کئ دھڑوں میں بٹ گئ تو دوسری جانب کراچی پر اپنا دعویٰ کرنے والے دسیوں پیدا توھوگئے مگر اس کو اپنانے سے کتراتے رہے ، پچھلے سات آٹھ سال سے اس شہر پر شاید قہر سا ٹُوٹا ھوا ہے اختیارات کی سیاسیجنگ نے عوام کا جینا حرام کردیا ھے , شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے ٹُکڑوں میں بٹنے کے بعد سندھ کی حکمران پارٹی نےاختیارات کے حصول کے لئے تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا ، کچھ اس میں نفرت اور بغض کا عنصر بھی شامل ہے کچھ مال وزر کی حوس اور کچھ دوسروں کو نیچا دکھانا اور اپنی ناجائز طاقت کا مظاہرہ کرنا ، مگر اس کھینچا تانی اور بندر بانٹ میں کراچیکی عوام رُل گئ اور کراچی دُھواں دُھواں ھوگیا ، جو سڑکیں کبھی دُھلا کرتی تھیں وہ ٹوٹی پڑی ہیں ، کبھی کراچی میں نالے اور پرنالے ھوا کرتے تھے وہ بند پڑے ہیں ، وہ کراچی جہاں روز صبح گلیوں میں بلدیہ کے ملازمین جھاڑو لگایا کرتے تھے آج کچرے کا ڈھیربنا ھوا ھے ، وہ کراچی جس کے بازاروں کی رونقیں شام چڑھتے ہی اپنے عروج پر ھوتی تھیں آج وہ بازار گرائے جارہے ہیں ، وہ کراچیجس کے کھیلوں کے میدانوں میں رونقیں لگی رہتی تھیں وہ چائنہ کٹنگ کی نظر ھوگئے ، وہ کراچی جہاں سکون بھی آکر پُر سکونھوجاتا تھا آج ڈاکوؤں اور لُٹیروں سے ڈرا سہما رہتا ھے ! وہ کراچی جو پورے پاکستان کو پچھتر فیصد کما کر دیتا ھے خود ننگ دھڑنگ اور بھوکا سا لگنے لگا ھے ۔

پانی کا حال بُرا ہے ، دہائیوں سے یہ بات سُنتے آرہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ جب بھی ھوگی وہ پانی کے لئے ھوگی مگر تیسریعالمی جنگ کا تو پتہ نہیں البتہ کراچی کے لوگ پانی کو ترس رہے ہیں اور لگتا ہے کہ یہاں لانی کو لیکر خانہ جنگی ہی شروع نہھوجائے ، پچھلے تیس پینتیس سال سے سب کو پتہ ہے کہ پانی کی چوری کون کررہا ھے ؟ ٹینکر مافیا کون ہے اور کس کی پشت پناہیہے انہیں ، عوام اپنے حق کا پانی خود خریدنے پر مجبور ہے ، کہیں پانی آ بھی رہا ھو تو اس میں گٹر کا پانی بھی شامل ھوجاتا ہے ۔ 

کراچی کی آبادی تو روز ہزاروں کی تعداد میں بڑھ رہی ہے مگر اس کا وارث کوئ نہیں ہے اس کو گلے لگانے والا اور اس کو اپنانے والاکوئ نہیں ہے ! وہ کراچی جو سب کا وارث تو بنتا رہا ھے اور بنتا رہے گا خود لاورث ھوگیا ہے ۔

پتہ سب کو ہے کہ ھو کیا رہا ھے ، کیوں ھورہا ھے ؟ کون کررہا ہے اور کیوں کررہا ہے مگر نہ جانے کیوں بے حسی طاری ھوگئ ہےلوگوں پر ! افسوس تو تب ھوتا ہے کہ کوئ صحافی سچ لکھنا نہیں چاہتا بولنا نہیں چاہتا ! آخر کیوں ؟ کیا یہ زرد صحافت نہیں ہے ؟


 

بشکریہ اردو کالمز